پرائس رویوکمیٹیاں

 امریکہ نے یہ دن بھی دیکھنے تھے یا تو ابراہام لنکن جارج واشنگٹن‘ جیفرسن‘ روز ویلٹ اور آئزن ہاور جیسے نابغہ روزگار اس کے صدور تھے اور یا پھر ہٹلر کی خاصیت رکھنے والا ڈونلڈ ٹرمپ‘ جس قسم کی زبان وہ استعمال کر رہا ہے وہ کسی بھی عالمی رہنما کو زیب نہیں دیتی‘موصوف نے امریکہ میں سیاہ فام باشندے پر پولیس کے ٹارچر کےخلاف ہونےوالے مظاہروں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں یہ تو پولیس کو نہیں کہتا کہ وہ ان پر گولی چلائے پر یہ ضرور کہتا ہوں کہ ان پر خونخوار کتے چھوڑ دیئے جائیں‘ اگر دو منٹ کےلئے یہ بات مان بھی لی جائے کہ ٹرمپ ایک کامیاب بزنس مین ہے جو کھربوں روپے کا مالک ہے پر یہ ضروری نہیں کہ ایک کامیاب تاجر ایک اچھا منتظم بھی ثابت ہو‘کیا ٹرمپ نے کچھ عرصہ پہلے کورونا وائرس کے متعلق یہ مضحکہ خیز بیان نہیں دیا تھا کہ امریکی خواہ مخواہ اس وبا سے گھبرا گئے ہیں وہ ڈیٹول پیا کریں انہیں کچھ نہیں ہوگا‘ایک عرصہ سے امریکہ نے ابراہام لنکن جیسے صدر اور جنرل میکارتھر جیسے فوجی رہنما پیدا کرنے چھوڑ دیئے ہیں ‘ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ چار دہائیوں سے اوسط درجے کی قابلیت رکھنے والے افراد وائٹ ہاو¿س کے مکین بن رہے ہیں۔

 ڈونلڈ ٹرمپ ایک شکی مزاج انسان ثابت ہوا ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر حکومت میں اپنے وزراءاور سرکاری افسران اور فوجی جرنیلوں سے نالاں ہو کر انہیں نہایت بے عزتی کےساتھ فارغ کر دیتا ہے اس میں مستقل مزاجی بالکل نہیں ہے ‘ خدا کرے کہ کورونا وائرس کی وباکا کوئی تریاق جلدسے جلد نکل آئے ‘مغربی ممالک اور چین کی لیبارٹریوں میں وہاں کے سائنسدان اسکی ویکسین دریافت کرنے میں مشغول ہیں ‘آج نہیں تو کل ضرور ایسی ویکسین دریافت ہو جائے گی کہ جو اس وائرس کا قلع قمع کر سکے گی‘ آخر ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک ایسا دور بھی تھا کہ جب لوگ ملیریا سے مرجاےا کرتے تھے دنیا کو فتح کرنےوالا جر نیل سکندر اعظم بھی ملیریا سے ہی مرا تھا پھر ایک ایسا دور بھی تھا کہ جب لوگ ٹائیفائیڈ‘ ٹی بی‘ سوزاک جیسی بیماریوں سے بھی ہلاک ہوجاتے تھے کیونکہ یہ بیماریاں لاعلاج اور جان لیوا تھیں‘یہ کریڈٹ ان سائنسدانوں کو جاتا ہے جنہوں نے ان بیماریوں کی ویکسین دریافت کی اور آج یہ بیماریاں جان لیوا نہیں رہیں۔

انیس سو اٹھارہ میں دنیا میں انفلوئنزاسے پانچ کروڑ لوگ ہلاک ہو گئے تھے پر آج انفلوئنزا کا علاج موجود ہے‘ عمران خان کی اس بات میں کافی وزن ہے کہ دنیا کے اکثر ملکوں میں مکمل طور پر لاک ڈاو¿ن کیا گیا پھر بھی وہاں اس وبا سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے‘ سردست اس وبا سے نبٹنے کا یہی سودمند راستہ ہے کہ لوگوں کے معمولات زندگی میں کوئی اڑچن نہ آئے اور ساتھ ہی ساتھ ریاست اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ جو حفاظتی اقدامات اس نے وضع کئے ہیں ان پر عوام سختی سے عمل کریں‘ ہمارے تاجروں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیتے ہیں پر جب کبھی پٹرول کی قیمت کم کی جاتی ہے تو اس صورت میں وہ پھر اس کے مطابق اشیائے خوردنی کی قیمتوں کو کم نہیں کرتے چند روز پہلے ملک میں پٹرول کی قیمت میں اچھی خاصی کمی ہوئی ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوتی بر ایسا ہوا نہیں عوام پوچھتے ہیں کہاں گئی وہ پرائس رویو کمیٹیاں۔