سفارتکاری کی اہمیت

وزارت خارجہ کا قلمدان بڑا اہم ہوتا ہے اس پر فائز شخص اگر اچھا مقرر ہو تو وہ بہت جلد مقبولیت کے لحاظ سے فرش سے عرش تک پہنچ جاتا ہے اور اگر وہ اچھا لکھاری بھی ہوتو پھر تو سونے پہ سہاگہ والی بات ہو جاتی ہے وہ پھر چشم زدن میں دنیا میں اپنے لیے ایک پہچان پیدا کر لیتا ہے اور بسا اوقات اتنا پاپولر ہو جاتا ہے کہ اپنے ملک کے صدر یا وزیراعظم پر بھی چھا جاتا ہے‘ ماضی قریب میں بعض ممالک کے وزرائے خارجہ نے اتنا نام کمایا کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے صدور یا وزرائے اعظم پر چھا گئے اس کیٹگری میں شامل جن وزرائے خارجہ کے نام ذہن میں آتے ہیں کہ جنہوں نے ایک لمبے عرصے تک اپنے ملک کی وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالے رکھا اور دنیا میں اپنی ایک ساکھ بنائی ان کے نام درج ذیل ہیں‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب آئزن ہاور امریکہ کے صدر بنے تو ان کے دور صدارت میں جان فوسٹر ڈلس امریکہ کے وزیر خارجہ تھے سوویت یونین کےخلاف امریکہ نے جو سرد جنگ شروع کی تھی وہ اس کے خالق تھے اسی طرح سوویت یونین میں ایک لمبے عرصے تک گرومیکووزیر خارجہ رہے ان کے دور حکومت میں سوویت یونین کے حکمرانوں کو دنیا اتنا نہیں جانتی تھی جتنا وہ گرومیکو کے نام سے آشنا تھی‘ سوویت یونین کی تاریخ میں اگر کوئی کامیاب ترین وزیر خارجہ گزرا ہے تووہ گرومیکو تھا‘نکسن کے دور حکومت میں امریکہ میں ڈاکٹر کسنجر نے بھی بطور وزیر خارجہ کافی نام کمایا ان کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ ان کی سفارتی کوششوں سے امریکہ نے چین کےساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کئے جو کہ ایک عرصہ سے بند پڑے تھے۔

بھارت کی وزارت خارجہ میں میں یو ں تو لاتعداد متحرک قسم کے اہلکار گزرے ہیں پر کرشنا مینن نے جو نام کمایا یا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا‘صدام حسین کے وزیر خارجہ طارق عزیز کا نام بھی یقینا آپ کو یاد ہوگا دنیا کے سفارتکاروں میں ان کا بھی ایک مقام تھا‘ وطن عزیز میں یو ں تو 1947 سے لے کر اب تک جو وزرائے خارجہ آئے ان کی ایک لمبی فہرست ہے پر خارجہ امور پرگہری نظر رکھنے والے مبصرین جو مقام سرظفر اللہ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو دیتے ہیں وہ کسی اور کو نہیں دیتے‘یہ دونوں حضرات اپنی اپنی جگہ کافی پڑھے لکھے تھے اور انہوں نے اقوام متحدہ کے فلور پر ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ ایسی تقاریر کیں کہ جنہیں آج بھی سیاسی مبصرین یاد کرتے ہیں‘اکثر سیاسی مبصرین یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے اپنے آخری وزارت عظمی کے دور میں چار سال سے زیادہ عرصے تک اگر کوئی ریگولر وزیرخارجہ مقرر نہیں کیا اور وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا تو اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کو یہ خدشہ تھا کہ اس منصب پرجس کسی کو بھی انہوں نے فائز کر دیا تو ہو سکتا ہے۔

 وہ کل کلاں ان سے زیادہ ملک کے اندر یا پارٹی کے اندر یا بین الاقوامی سطح پر کہیں زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر لے اس خیال میں کافی وزن بھی ہے اور وہ اس لیے کہ میڈیا میں بھلے وہ ملکی میڈیا ہو یا بین الاقوامی میڈیا جتنی پبلسٹی کسی ملک کا وزیر خارجہ حاصل کر سکتا ہے اتنی شاید ہی اس ملک کا وزیراعظم یا کوئی اور وزیر حاصل کر سکے‘ وزرائے خارجہ کو آپ دو کیٹگریز میں شامل کر سکتے ہیں‘ ایک کیٹگری وہ ہے کہ جس میں مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد فارن آفس میں امیدواروں کی خواہش کے مطابق افراد کو بھرتی کیا جاتاہے ان کوآپ کیریئر ڈپلومیٹس کہتے ہیں دوسری کیٹگری میں وہ لوگ آتے ہیں جنہیں حکومت سیاسی بنیادوں پر اوپن مارکیٹ سے منتخب کرکے وزارت خارجہ کا قلمدان حوالے کرتی ہے تجربہ بتاتا ہے ہے کہ ان دونوں کےٹگریز کے ارکان اکثر آپس میں چپقلش کا شکار رہتے ہیں۔