جب امریکہ کے ہر دلعزیز صدر جان ایف کینیڈی نے اپنے بھائی رابرٹ کنیڈی کو امریکہ کا اٹارنی جنرل نامزد کیا تھا تو اس وقت امریکہ میں بہت انگلیاں اٹھائی گئی تھیں کہ اس اقدام سے کنبہ پروری کی بو آتی ہے یہ اور بات ہے کہ رابرٹ کنیڈی ہر لحاظ سے اس منصب کیلئے موزوں تھے اس لئے سیانے کہتے ہیں کہ حکمرانوں کو قطعا ًکوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہئے کہ جس سے رتی بھر بھی ان کی جانبداری پر ذرا سا بھی حرف آ ے بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ بہت کم حکمران ایسے ہوتے ہیں جو اس قسم کی باریکیوں کی طرف توجہ دیتے ہیں تاریخ سے وہ بالکل سبق نہیں لیتے۔ اس معاملے میں بانی پاکستان اورملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے منسوب ہم دو حقائق کا تذکرہ کریں گے کہ جن کے اندر پنہاں کتنے گہرے اخلاقی اسباق ہیں ایک مرتبہ قائد اعظم کے حقیقی چچازاد بھائی ان سے ملاقات کیلئے گورنر جنرل ہاؤس ملنے آ ئے اور ان کے ملٹری سیکریٹری کو اپنا وزٹنگ کارڈ پیش کیا جس پر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ یہ لکھا تھا ”کزن آ ف قائد اعظم“جب وہ کارڈ قائد کے ملٹری سیکرٹری نے ان کے سامنے رکھا تو بانی پاکستان نے اپنے سرخ رنگ کی سیاہی والے قلم سے اپنے ہاتھ سے ”کزن آ ف قائد اعظم“ کے الفاظ پر لکیر پھیر دی اور اپنے ملٹری سیکرٹری کو وہ کارڈ واپس دیتے ہوئے کہا کہ موصوف کو کہہ دیا جائے کہ وہ آئندہ کبھی بھی اپنے وزٹنگ کارڈ پر”کزن آ ف قائد اعظم“ نہ لکھا کریں اور یہ کہ چونکہ اب وہ مصروف ہیں انہیں پھر وہ کسی وقت بلا لیں گے یہ تھا احتیاط کا عالم بانی پاکستان یہ قطعا نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کوئی رشتہ دار ان کے نام سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھائے ان کے سیاسی جانشینوں نے کنبہ پروری کی البتہ جو روایت قائم کی وہ آ ج بھی جاری و ساری ہے آ ج چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دورہے اسلئے کوئی بھی خلاف قاعدہ حرکت فورا ًمنظر عام پر آ جاتی ہے اور پکڑی جاتی ہے۔ نیا نیا پاکستان بنا تھا کمشنر کراچی ہاشم رضا اس کمیٹی کے سربراہ تھے کہ جو بھارت سے آ ئے ہوئے مہاجروں کو کراچی میں گھر الاٹ کر رہی تھی ایک پرانے مسلم لیگی کہ جس نے تحریک پاکستان میں پرزور حصہ لیا تھا اور جسے بانی پاکستان ذاتی طور پر بھی جانتے تھے نے ان سے کہا کہ ذرا کمشنر صاحب کو سفارش کر دیں کہ ان کو گھر جلدی الاٹ کر دیا جاے قائد نے اسے جواب دیا کہ وہ کمشنر کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتے اسی طرح پاکستان کے پہلے وزیراعظم سے ان کی اہلیہ بیگم رانا لیاقت علی خان نے ایک دو مرتبہ گزارش کی کہ وہ بھارت سے آئے ہوئے آئے لاکھوں مہاجرین کو کراچی میں گھر الاٹ کر رہے ہیں وہ اپنے لئے بھی کچھ اسی قسم کا بندوبست کریں کہ ان کے پاس بھی یہاں رہنے کو اپنا کوئی گھر نہیں ہے تو قائد ملت نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ جب مہاجرین گھر والے ہو جائیں گے تو پھر میں اپنے لیے بھی کوئی بندوبست کروں گا اب اگر میں نے اپنے لئے کوئی گھر الاٹ کروا لیا تو یہ مہاجرین کیا سوچیں گے کہ وزیر اعظم صاحب نے اپنے لئے تو گھر الاٹ کرا لیا ہے ہم ابھی تک باقی ہیں ان دو مثالوں کا ذکر کرنا اسلئے ضروری تھا کہ اس وقت اس ملک میں جو اخلاقیات کا فقدان ہے اسے ختم کرنے کیلئے سیانے یہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں ایسے تعلیمی ادارے بھی ہونے ضروری ہیں کہ جس طرح کسی زمانے میں افلاطون نے یونان میں بنائے تھے اور جہاں نوجوانوں کو اخلاقی اقدار کی تعلیم دی جاتی تھی تاکہ ان کو حلال اور حرام میں تمیز کرناسمجھ آ جائے افلاطون کے زمانے میں جو تعلیمی ادارے تھے ان میں بچوں کو قانون پر عمل داری کے فوائد سے روشناس کرایا جاتا اور ان میں یہ ہمت پیدا کی جاتی کہ وہ باطل کے مقابلے میں حق کے ساتھ کھڑے ہوں ان میں اخلاقی احساس جگایا جاتا اور یہ کام ان کی سکول کی ابتدائی جماعتوں سے ہی شروع کروا دیا جاتا ہمارے ہاں بھی ہماری نصابی کتابوں میں اخلاقی موضوعات پر مضامین تو موجود ہیں پر ان کی روح سے طلبا کو روشناس کرایا نہیں جاتا اور انہیں ایسا پڑھایا جاتا ہے کہ جیسے بس ان کا کام یہ ہے کہ ان مضامین کو یاد کر کے امتحان میں اچھے نمبر حاصل کرنے ہیں ہمارے طلباء جب تعلیم ختم کرکے عملی زندگی میں باہر آتے ہیں تو ان میں میں اتنا انسان دوستی کا جذبہ نہیں پایا جاتا کہ جتنا ضروری ہے ان کو یہ سکھلانا ضروری ہے اخلاق کی دولت ہی اصل دولت ہے اور مال و دھن کی موجودگی کے باجود اگر اخلاقی طور پر کوئی دیوالیہ ہوجائے تو یہ اصل دیوالیہ پن ہے۔