میزانیہ کے بعد۔۔۔۔

وفاقی کابینہ اور خود وزیر اعظم عمران خان کی مخالفت پر حکومت نے بجٹ میں اعلان کردہ موبائل کالز‘ انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر ٹیکس کی تجویز واپس لے لی ہے بجٹ کے اگلے روز حسب روایت منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ شوکت فیاض احمد ترین نے مالی سال2021-22ء کے بجٹ کی بعض اہم باتوں کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا اسکے ساتھ انہوں نے بجٹ میں مقرر کردہ اہداف تک رسائی کیلئے حکومتی حکمت عملی کے خدوخال بھی پیش کئے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اب کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا ٹیکس جمع کرنے کے ہدف میں 500 ارب روپے اضافی ہونگے تمام بڑے سٹورز پر سیلز ٹیکس لگایا جائیگا وزیرخزانہ ٹیکس چوری کرنے والوں تک رسائی کیلئے حکمت عملی کی تفصیل بتانے کیساتھ کھلے دل سے اعتراف کر رہے ہیں کہ پاکستان ماضی میں جو چیزیں ایکسپورٹ کرتا تھا اب ہم وہی چیزیں بیرونی ممالک سے خریدتے ہیں  گندم‘ چینی اور دالوں کی درآمد  سے متعلق وزیر خزانہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے فصلوں پر توجہ نہیں دی وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان فوڈ ڈیفیسٹ ملک بن چکا ہے حکومت حکمت عملی میں ریٹیلرز کی لگ بھگ 1500 ارب روپے سالانہ سیل ہے جس پر اب تمام بڑے سٹورز پر ٹیکس لگایا جائے گا حکومت عام صارف کو پکی رسید لینے پر انعام دینے کا بھی کہہ رہی ہے معیشت کو درپیش چیلنج ایک تلخ حقیقت ہے کھربوں روپے کے قرضوں کیساتھ اب بھی آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اس ضمن میں چھٹا جائزہ اجلاس اگلے ماہ تک چلے گا معیشت کی حالت کا براہ راست اثر مہنگائی کی صورت اس عام شہری پر ہی پڑ رہا ہے کہ جو کسی طور اس ساری صورتحال کا ذمہ دار نہیں معاشی منظرنامے میں ہمارے اہم شعبے بھی عدم توجہ کا شکار ہوئے خود وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ وطن عزیز میں چھوٹے کاشتکار کو گزشتہ70 سال سے کچھ نہیں ملا اور یہ کہ اب حکومت غریب کسان کو5 لاکھ روپے تک کا قرضہ دے گی چھوٹا کاشتکار ہو یا وطن عزیز کا کوئی بھی عام شہری اسے نہ صرف یہ کہ کچھ ملا نہیں بلکہ پورے معاشی منظرنامے میں ہر ٹیکس کا بوجھ اسی پر ڈالا جاتا رہا ہے اب بھی کسی نہ کسی طور بڑے سٹورز پر لگنے والا ٹیکس یہ عام شہری ہی ادا کرے گا مہنگائی کے ہاتھوں نالاں اس شہری کو بتایا جارہاہے کہ اب گرانی کی شرح دس فیصد سے کم ہی رکھی جائیگی تاہم سرکاری کتابوں میں دیئے گئے اعدادوشمار اور برسرزمین حقائق کے درمیان گیپ موجود رہتا ہے اسکی وجہ مارکیٹ کنٹرول کیلئے کسی کل وقتی موثر نظام کا نہ ہونا بھی ہے ملک کی معیشت کو درپیش مشکلات کے حل اور عوامی ریلیف کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات اپنی جگہ‘ صورتحال متقاضی ہے مسائل کے مستقل حل کی‘ اس مقصد کیلئے اکانومی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوگا صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بڑھانا ہوں گی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیساتھ صنعتی و زرعی شعبے میں آگے بڑھنے کیلئے پیداواری لاگت کم کرنا ہوگی آبی ذخائر کو ترجیح دینا ہوگی سمگلنگ کا خاتمہ کرنے کیساتھ مارکیٹ کنٹرول یقینی بنانا ہوگا اس مقصد کیلئے مختلف مدتوں میں تقسیم حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی بصورت دیگر قرضوں کاحجم ہی بڑھتا رہے گا اور عام آدمی کسی ریلیف کا کوئی احساس نہیں پاسکے گا۔