بد قسمت ہمسایہ

افغانستان نیشنل آرمی کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہے جس کو امریکہ نے جدید ترین اسلحہ سے لیس کیا ہوا ہے اسی طرح افغان ائر فورس کے پاس 167 جنگی جہاز ہیں پر اس کے باوجود اگر وہ اپنی حکومت کا دفاع نہیں کر پا رہے تو پھر کیا اس سے یہ اخذ کر لیا جائے کہ اس فوج کی تربیت میں کوئی سقم رہ گیا ہے یا اس کی خراب کا ر کردگی کی کوئی اور وجہ ہے؟اس فوج پر ہر سال جو خرچہ کیا جاتا ہے وہ چھ ارب ڈالر ہے،جو بات ناقابل فہم ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے کنارہ کش ہو گیا ہے اور دیگر بڑے ممالک کی طرح سائڈ لائن پر بیٹھ کر خاموشی سے تماشہ دیکھ رہاہے جیسے انتظار کر رہا ہو کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘کیا اقوام متحدہ کا فرض نہیں بنتا کہ وہ فوراً اس قضیے میں مداخلت کر کے وہاں امن فوج اتارے اور وہاں کے متحارب سیاسی گروہوں کے اشتراک عمل سے الیکشن کا ایک فریم ورک بنائے اور پھر الیکشن جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کیا جائے؟ اس کے علاوہ ہمیں تو اور کوئی اس مخمصے کو ختم کرنے کا کوئی دوسرا رستہ نظر نہیں آ رہا اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر شاید اس صدی میں بھی افغانستان میں کشت وخون کا بازار گرم رہے‘اس صورت حال میں پھر افغانستان میں کوئی خوش نہیں رہ سکے گا‘ اس حقیقت کا اگر جتنی جلدی افغانستان میں بسنے والی مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ادراک ہو گا اتنا ہی ان کیلئے بہتر ہوگا افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا یہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ طالبان اگر بزور شمشیر افغانستان پر قبضہ کر لیتے ہیں تو ان کی حکومت کو شاذ ہی دنیا کا کوئی بھی ملک تسلیم کرے اس لئے کیا یہ ضروری نہیں کہ تمام متحارب گروہ آ پس میں مشاورت کے بعد پہلے مرحلے میں جنگ بندی کریں اور آ پس میں گفت و شنید کے بعد ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں لا کر اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزادانہ الیکشن کے بعد اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے ہو جو پھر ملک کیلئے ایک آئین مرتب کریں‘بھارت البتہ اس بات پر سخت پریشان نظر آ رہاہے کہ اشرف غنی اور ان کا ٹولا افغانستان میں سر دست شکست سے دوچار ہے اگر وہاں ایسے لوگ بر سر اقتدار آ جاتے ہیں کہ جو بھارت کو گھاس نہیں ڈالتے تو پھر وہ افغانستان کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف کیونکر استعمال کر سکے گا یہ غم اسے کھائے جا رہا ہے بھارت اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے بھی سخت پریشان ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ تبت کے علاقے میں وہ ان کئی علاقوں سے دھیرے دھیرے پیچھے ہٹ رہا ہے کہ جن پر کل تک وہ اپنی ملکیت کا دعویٰ جتلایا کرتا تھا دل ہی دل میں بھارتی حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ عسکری طور پر اس قابل نہیں کہ چین کیساتھ کسی جنگ میں ملوث ہوں انیس سو ساٹھ کی دہائی میں بھارتی فوجیوں کو چینی فوجیوں کے ساتھ لڑائی میں سخت تلخ تجربہ ہوا ہے اور چینیوں سے شکست کھانے کے بعد ان کا مورال تب سے کافی حد تک گرا ہوا ہے عملی طور پر تو تمام تبت پر اس وقت چین چھا چکا ہے اور اس نے تبت سے لے کر مغربی بنگال تک رسائی کے لئے سڑکوں کا ایک ایسا مربوط جال بچھا دیا ہے کہ وہ جب بھی چاہے با آسانی بھارت کے دروازے پر دستک دے سکتا ہے آج نہیں تو کل وہ لداخ سکم بھوٹان وغیرہ کو بھی ون بیلٹ ون روڈ میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا بھارت اس بات پر بھی سخت پریشان ہے کہ تبت پر چین نے کافی حد تک دسترس حاصل کرلی ہے کیونکہ بھارت کے لیڈروں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ہندوستان میں جتنے بھی دریا بہتے ہیں ان کا منبع تبت ہے۔