افغانستان میں طالبان نے اپنی نئی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا ہے ذرا ئع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ملا محمدحسن اخوند عبوری وزیراعظم جبکہ ملا عبدالغنی نائب وزیراعظم ہونگے طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ملابرادر عبدالغنی اور مولانا عبدالسلام دونوں ملا محمد حسن کے معاون ہونگے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عبوری کابینہ تبدیل ہو سکتی ہے اس وقت افغانستان کی صورتحال پیچیدہ اور مشکل ہے تاہم سیاسی صورتحال معمول پر آنے سے حالات بہتر ہونگے اس سارے منظرنامے میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ہم افغانستان میں ہونیوالی تبدیلی کا جائزہ لے رہے ہیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ افغانستان میں نگران سیٹ اپ کے اعلان پر ردعمل دینا قبل ازوقت ہوگا ہمیں کچھ انتظار کرنا چاہئے1979ء میں کابل پر روسی یلغار کیساتھ پیدا ہونیوالے حالات کا اثر پاکستان پر بھی پڑا پاکستان اس وقت سے اب تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے افغانستان کے حالات سے پیدا صورتحال میں پاکستان کو80 ہزار جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا معاشی نقصان کا تخمینہ150 ارب لگایا گیا ہے اس وقت بھی پاکستان کو افغانستان ہی کے حوالے سے متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے افغانستان کے حالات میں پاکستان کا امن کے قیام کیلئے کردار ریکارڈ کا حصہ ہے پاکستان کا موقف ہمیشہ شفاف رہا ہے اب بھی افغانستان میں درپیش حالات کے تناظر میں گزشتہ روز6ملکی علاقائی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تبدیلی ایک حقیقت ہے اور یہ کہ افغان عوام گزشتہ چالیس سال سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ہم افغانستان کی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرتے ہیں اس سب کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانستان کی معاشی صورتحال بہتر کرنے کیلئے بین الاقوامی برادری کو کردار ادا کرنا ہوگا دوسری جانب بھارت پاکستان کیخلاف مسلسل پروپیگنڈے میں لگا ہے اور اب وہ اس مہم میں ویڈیو گیم کی لڑائی دکھا کر افغانستان میں پاکستان کی کاروائیوں کو ظاہر کرنے کی کوشش بھی کر چکا ہے افغانستان کے حوالے سے پاکستان جو موقف رکھتا چلاآیا ہے وہ ہر مرحلے پر درست ثابت ہوا ہے اب ضرورت ہے کہ پاکستان ہی کے موقف کو سپورٹ دے کر آگے بڑھاجائے جس کیلئے بین الاقوامی برادری کو اب اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
آٹھ تکلیف دہ بیماریوں کا مفت علاج
خیبرپختونخوا حکومت نے گردے‘ جگر‘ بون میرو ٹرانسپلانٹ اور تھیلی سیمیا سمیت آٹھ بیماریوں کے مفت علاج کا عندیہ دیا ہے یہ علاج صحت کارڈپر ہوگا یا علیحدہ سے اس کیلئے انتظام کیا جائیگا اس بات پر ابھی غور جاری ہے اس حوالے سے متعلقہ حکام کو تجاویز دینے کا کہہ دیا گیا ہے وزیر اعلیٰ کا مہنگے علاج والی مذکورہ بیماریوں کے علاج سے متعلق احساس قابل اطمینان ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مذکورہ بیماریوں کے شکار مریض اور ان کے تیماردار علاج کیلئے کس قدر پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا صحت کارڈ ہو یا پھر آٹھ بیماریوں کا مفت علاج صحت کے شعبے میں اصلاحات ہوں یا ہسپتالوں میں انتظامی حوالے سے نت نئے تجربات ضرورت ایک ایسے نظام کی ہے کہ جس میں اس سب پر عملدرآمد کو مانیٹر کیا جائے اور دیکھا جائے کہ عوام کو ریلیف مل رہا ہے یا نہیں اگر تمام اقدامات کے باوجود لوگ ہسپتالوں میں دھکے کھاتے رہیں تو حکومت کی ساری کاوشیں بے ثمر ہی رہیں گی۔