پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف سینیٹر سید شبلی فراز نے روزنامہ”آج”کو اپنے انٹرویو میں درپیش حالات کے تناظر میں خیبرپختونخوا حکومت کی حکمت عملی کے خدوخال اجاگر کئے ہیں‘ سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ صوبے کے واجبات اور دوسرے حقوق سے متعلق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کا موقف اصولی ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ ہم صوبے کے حقوق پر کوئی سودے بازی نہیں کرینگے‘ وفاق سے واجبات کی وصولی کیساتھ صوبے میں خود مالی نظم ونسق کیلئے پائیدار منصوبہ بندی کے تحت کام جاری ہے‘ اس میں ٹیکس کی شرح بڑھانے کی بجائے ٹیکس نیٹ میں توسیع زیادہ بہتر نتائج دے سکتی ہے‘ وہ پولیس ریفارمز سمیت مختلف سیکٹرز میں اصلاحات کو حکومتی حکمت عملی کا حصہ بھی قرار دیتے ہیں سینیٹر شبلی فراز صحت کارڈ کے پورے سسٹم میں بہتری‘ہسپتالوں میں حالات بہتر بنانے اور طبی شعبے خصوصاً نرسنگ کی تعلیم کو بھی صوبے میں حکومتی ترجیحات کا حصہ قرار دیتے ہیں‘وہ پشاور کی تعمیر وترقی کیلئے جامع منصوبہ بندی اور سرکاری یونیورسٹیوں میں درپیش مالی بحران کے حل کیلئے بھی متعدد تجاویز کا عندیہ بھی دے رہے ہیں‘اس وقت وطن عزیز کو اکانومی کے سیکٹر میں سخت چیلنجوں کا سامنا ہے‘ خیبرپختونوا کی صورت حال میں یہاں کا جغرافیہ بندرگاہ سے دوری‘ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی اور امن وامان کے حوالے سے چیلنج بھی ہیں‘ ایسے میں صوبے کے واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ضرورت خیبرپختونخوا میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اور زرعی پیداوار میں اضافے کیلئے مراعات و سہولیات پر مشتمل پیکیج کی بھی ہے‘ جہاں تک صوبے میں اصلاح احوال کیلئے حکومتی ترجیحات کا تعلق ہے تو وہ قابل اطمینان ضرور ہیں تاہم ان کا ثمر آور ثابت ہونا عملدرآمد کیلئے محفوظ نظام کیساتھ جڑا ہوا ہے صوبے کی حکومت عوام کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے کو ترجیح قرار دیتی ہے اس مقصد کیلئے صحت کارڈ کے تحت سروسز کو بہتر بنانے اور اس میں فوکس غریب شہریوں کو رکھنے کیساتھ سرکاری ہسپتالوں میں مجموعی طورپر سروسز کامعیار بہتر بنانے کا عندیہ دیا جارہاہے‘عوام کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا مرکز اور صوبوں میں حکومتی ترجیحات کا حصہ رہتا ہے اور اس کیلئے کم اور زیادہ کے فرق سے ہر دور میں اقدامات اٹھائے بھی جاتے ہیں‘ اس کے باوجود برسرزمین عملی نتائج سے عوام مطمئن نہیں‘اس صورت حال کا تقاضہ ہے کہ سرکاری علاج گاہوں میں نگرانی کا موثر نظام تشکیل دیا جائے اور ذمہ دار حکام آن سپاٹ لوگوں کی مشکلات کا جائزہ لے کر اقدامات کا حکم دیں‘ سرکاری یونیورسٹیوں سے متعلق حکومتی سطح پر احساس قابل اطمینان ہے تاہم اصلاح احوال کے اقدامات میں غریب طلباء و طالبات پر فیسوں کی مد میں مزید لوڈ نہ ڈالا جائے محکمانہ ریفارمز میں سٹیک ہولڈرز کی مشاورت ناگزیر ہے تاکہ بعد میں قاعدے قانون پر نظرثانی کی ضرورت پیش نہ آئے۔