موسم اور سیاست کا درجہ حرارت



وطن عزیزمیں موسم گرم ہونے لگا ہے جبکہ میدان سیاست کا درجہ حرارت بھی بدستور بلند ہے‘ موسم گرم ہونے کے ساتھ گرمیوں سے جڑے مسائل خصوصاً بجلی کی طلب کے مقابلے میںکم رسد اپنی جگہ پریشان کن ہے جبکہ سیاسی گرما گرمی میں دیکھا جانے والا تناﺅ اور کشمکش اپنی جگہ ہے‘ اس سب کیساتھ جاری مالی سال کے اختتام پر نئے قومی بجٹ کی تیاری کا اہم مرحلہ بھی پیش ہے کسی بھی ریاست یا اس کی کسی بھی اکائی میں میزانیہ پیش کرنے کیلئے اقتصادی منظرنامہ ہی مدنظر رکھا جاتا ہے‘ وطن عزیز میں اکانومی کھربوں روپے کے بیرونی قرضوں تلے دبی ہوئی ہے‘ اندرونی اور گردشی قرضے اس سے الگ ہیں‘ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ ہو یا اقتصادی شعبے کے دیگر اشاریے ‘صورتحال اصلاح احوال کی متقاضی ہی ہے ملک کی معیشت کو اس حال تک کس طرح پہنچایا گیا اور اس کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں ہے ‘کی بحث میں ہر ایک اپنے آپ کو بری الذمہ اور دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتاہے‘ ملک میں یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنیوالی ہر حکومت اسکی ذمہ دار اپنے سے پہلے کی حکومت قرار دیتی ہے جبکہ اس سارے عمل میں قرضوں کا انبار مسلسل بڑھتا ہی چلا جا رہاہے توانائی بحران اپنی جگہ ہے جبکہ ساری صورتحال میں متاثر صرف ملک کا غریب شہری ہی ہو رہا ہے اس شہری کی کمر ہوشربا گرانی نے توڑ کر رکھ دی ہے‘ قومی بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش ہونے جا رہا ہے جب ملک کا سیاسی منظرنامہ انتہائی تناﺅ کاشکار ہے‘ اسی گرماگرمی کے ماحول میں عالمی مالیاتی فنڈز کے ساتھ قرضے کے سلسلے میں شرائط کا سلسلہ بھی جاری ہے ان شرائط پر عملدرآمد کا فیصلہ تو حکومتی سطح پر ہی ہمیشہ ہوتا ہے تاہم ان پر عملدرآمد کا بوجھ عوام کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے‘ اس وقت عوام اس بوجھ کے ہاتھوں سخت اذیت سے دوچار ہے‘ اس وقت ملک کے عام شہری کو براہ راست اور بالواسطہ عائد ہونےوالا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے بجلی صنعتوں یا زرعی صارفین کیلئے مہنگی ہو تو بھی پیداواری لاگت میں اضافے کا لوڈ مارکیٹ میں عوام ہی کو برداشت کرنا ہوتا ہے دوسری جانب فیول چارجز میں اضافہ ہو تو بھی بجلی بل کا حجم اسی شہری کیلئے بڑھ جاتا ہے یہ شہری عالمی اقتصادی صورتحال اور ملک کی معیشت کو درپیش مشکلات کے تناظر میں ہونے والی مہنگائی بھی برداشت کرتا ہے جبکہ مارکیٹ پر موثر کنٹرول نہ ہونے کے باعث مصنوعی گرانی کاسامنا بھی کرتاہے‘ ملک میں جاری سیاسی تناﺅ اور کشمکش کے نتیجے میں دکھائی دینے والی عدم استحکام کی صورتحال‘ اقتصادی شعبے میں درپیش چیلنج‘ امن وامان اور دوسرے اہم امور متقاضی ہیں کہ اب معاملات کو بعدازخرابی بسیار سہی سلجھاﺅ کی جانب لے جایا جائے جس کیلئے قومی قیادت کے درمیان مکالمہ ضروری ہے۔