صرف احکامات نہیں نگرانی بھی

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ملاوٹ پر زیروٹالرنس کا عندیہ قابل اطمینان ضرور ہے تاہم اسکے عملی نتائج کا انحصار عملدرآمد کے تمام مراحل کی مانیٹرنگ پر ہے‘ وزیر اعلیٰ سردار علی امین گنڈا پور نے گزشتہ روز پشاور میں قائم ہونیوالی فوڈ پراڈکٹس کی رجسٹریشن اور ٹیسٹنگ کیلئے لیبارٹری کی تعمیر جلد مکمل کرنے کی ہدایت کیساتھ ملاوٹ مافیا کیخلاف سخت کاروائی کا حکم بھی جاری کیا‘ وزیر اعلیٰ  نے پشاور کے رنگ روڈ کو اپ گریڈ کرنے کی ہدایت کیساتھ یہ بھی کہا کہ صوبے کے ڈویژنل صدر مقامات میں پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید نظام سے متعلق تجاویز بھی تیار کی جائیں سردار علی امین گنڈاپور نے پشاور بی آر ٹی پلازوں کی جلد تکمیل کا حکم بھی دیا۔ جہاں تک ملاوٹ کا سوال ہے تو گرانی کے اس اذیت ناک دور میں مارکیٹ کنٹرول کے موثر نظام کی عدم موجودگی میں عوام کو ایک طرف کمر توڑ مہنگائی کا سامنا ہے تو دوسری جانب ملاوٹ انسانی صحت و زندگی کیلئے خطرہ بنتی چلی جارہی ہے‘ اس ضمن میں آئے روز کی عوامی شکایات اپنی جگہ‘ خود ذمہ دار دفاتر کی جانب سے دودھ کے93 فیصد نمونے مضر صحت ہونے کی تصدیق عوام کیلئے تشوشناک جبکہ مارکیٹ کنٹرول کے ذمہ داروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے‘93فیصد نمونے مضر صحت ہونے کی رپورٹ کے ساتھ ضرورت تو اس بات کی رہ جاتی ہے کہ اب اتنا بڑا اور تشویشناک انکشاف ہو جانے پر اصلاح احوال کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے‘ ذمہ دار دفاتر کی ڈیوٹی صرف نشاندہی پر ختم نہیں ہوتی اور نہ ہی اعدادوشمار سامنے لانا کسی مسئلے کا حل ہے‘ یہ صرف مسئلے کی شدت اور نوعیت کی نشاندہی کر دیتا ہے‘ اس سے اگلا مرحلہ اصلاح احوال کی جانب بڑھنے کا ہے‘ اس وقت ضرورت ملک میں مارکیٹ کنٹرول کے لئے ایک موثر کل وقتی نظام کی ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈر دفاتر کے وسائل اور افرادی قوت کا استعمال ممکن بنایا جا سکے‘ ماضی قریب میں مجسٹریسی نظام آپریشنل تھا جنرل مشرف کے دور میں بلدیاتی اداروں کے نئے خدوخال ترتیب دینے اور ضلعی حکومتوں کے قیام پر اس سسٹم کو فائلوں میں بند کردیاگیا‘ اسی طرح اضلاع کی سطح پر کام کرنے والی پرائس کمیٹیوں کو بھی اس طور پر فعال نہ رکھا گیا کہ جس طرح وہ پہلے تھیں اس کے نتیجے میں منڈی کنٹرول کا کام صرف نرخنامے کے اجراء اور کبھی کبھار کے چھاپوں تک محدود رہ گیا‘ اس میں مصنوعی گرانی اور ملاوٹ نے عوام کو شدید مشکلات کا شکار کر دیا ایسے میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کاملاوٹ کے خلاف اقدامات کا حکم دینا ان کے احساس کا عکاس ہے‘تاہم ثمر آور نتائج یقینی بنانے کی غرض سے انہیں اپنے احکامات پر عملدرآمد کے مراحل کی مانیٹرنگ کا انتظام بھی یقینی بنانا ہوگا تاکہ عوام  کے لئے ریلیف یقینی بنایا جاسکے۔