صحت کے بعد تعلیم کارڈ

خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں تعلیم کارڈ کے اجراء کی جانب عملی پیشرفت میں پائلٹ پراجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ پشاور میں گزشتہ روز ہونیوالے اجلاس میں وزیر اعلیٰ سردار علی امین گنڈا پور نے اس ضمن میں محکمہ خزانہ اور تعلیم کو فوری اقدامات کی ہدایت کردی ہے‘پراجیکٹ کا بنیادی فوکس قابل طلباء و طالبات کی معروف اداروں تک رسائی ممکن بنانا ہے کہ جن میں  وہ معیاری تعلیم حاصل کر سکیں‘ وزیر اعلیٰ اس پراجیکٹ کو فلیگ شپ قرار دیتے ہیں‘خیبرپختونخوا اس سے پہلے صحت کارڈ کے اجراء کیساتھ اس حوالے سے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے‘تعلیم کارڈ کاپراجیکٹ بھی یقینا انفرادیت کا حامل ہے‘ تعلیم اور صحت کے سیکٹر مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار آنیوالی حکومتوں کی ترجیحات میں سرفہرست ہوتے ہیں کم اور زیادہ کے فرق سے ہر حکومت ان شعبوں میں اصلاحات کیلئے اقدامات بھی اٹھاتی ہے اس سب کے باوجود عملی نتائج کے حوالے سے عام شہری کا گلہ اپنی جگہ برقرار ہی رہتا ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کسی بھی ریاست میں حکومتی سطح پر اٹھائے جانے والے عوامی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات اسی صورت ثمر آور ثابت ہوتے ہیں جب ذمہ دار مشینری پوری فعالیت کے ساتھ کام کرے اور ذمہ دار حکام برسرزمین صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے دفاتر سے باہر آئیں‘ فائلوں میں لگی رپورٹس پر اکتفا کرتے ہوئے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں سب اچھا کی رپورٹس پیش ہونا معمول بن چکا ہے‘ صحت کارڈ بلاشبہ ایک بڑا منصوبہ ہے‘ اسکے ساتھ علاج کی سہولیات کی فراہمی کے سرکاری مراکز میں سروسز کے حصول میں مشکلات اپنی جگہ ہیں‘ ان مشکلات کو مہیا وسائل اور انفراسٹرکچر کے ساتھ اسی صورت دور کیا جا سکتا ہے جب موقع پر عوامی شکایات کو سنا جائے‘ دیکھا جائے کہ پورا دن سرکاری علاج گاہ میں گزارنے والا مریض شام کو کیوں کسی نجی کلینک اور لیبارٹری جانے پر مجبور ہوا‘ اسی طرح دیکھا یہ بھی جائے کہ بھاری ادائیگی پر اسے پرائیویٹ کلینک‘ ہسپتال اور لیبارٹری میں خدمات معیار کے ساتھ ملیں بھی کہ نہیں دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ نجی شعبے میں چارجز کسی قاعدے قانون کے پابند ہیں یا نہیں‘ اسی طرح ایجوکیشن سیکٹر میں معیار تعلیم یقینی بنانا ضروری ہے‘ دیکھا جائے کہ بھاری بجٹ مختص ہونے کے باوجود عام شہری دیگر ضروریات کم کرکے بچے کو پرائیویٹ سکول کیوں بھجوانے پر مجبور ہے‘اس سب کیلئے ضرورت تلخ حقائق سے آگہی کی ہے تعلیم کارڈ کے اجراء کے لئے اپر چترال کا انتخاب اس لئے ہوا کہ صوبے کے چیف سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر خود وہاں گئے اور گلیشیئر پھٹنے کے واقع کے بعد کی صورتحال پر اجلاس میں بریفنگ دی‘ اس طرح برسرزمین صورتحال سب کے سامنے آگئی‘ کیا ہی بہتر ہو کہ منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی میں اسی طرح زمینی حقائق کو دیکھا جائے تاکہ پائیدار حکمت عملی ترتیب دی جا سکے۔