وزیراعظم شہبازشریف ملک اور عوام کو درپیش مشکلات سے متعلق تفصیلات بتانے کیساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ سب اچھا نہیں تو سب برا بھی نہیں‘ اسلام آباد میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں وزیراعظم بجلی کے بلوں میں جلد کمی کا عندیہ دینے کیساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 5سالہ معاشی پروگرام کا اعلان جلد کرنے والا ہوں‘ جہاں تک معاشی پروگرام کا تعلق ہے تو اس میں سب سے ضروری زمینی حقائق کو مدنظر کھنا اور وہ پالیسیاں تشکیل دینا ضروری ہیں کہ جن کے نتائج ثمرآور صورت میں سامنے آئیں‘ بڑے بڑے اعدادوشمار اور امکانات پر مبنی رپورٹس اور منصوبے وقتی طور پر بہت حوصلہ افزاء ہوتے ہیں تاہم بعد میں عملی صورت اختیار نہیں کر پاتے‘ بجلی کے کیس میں بلوں کی مد میں عوام کو ریلیف دینے کا عندیہ اپنی جگہ قابل اطمینان ہے تاہم حکومتی مجبوریاں اس ریلیف کا زیادہ لوڈ برداشت نہیں کر سکتیں اس لئے وزیراعظم کا اصلاح احوال کیلئے پرعزم ہونا قابل اطمینان ضرور ہے جس کے نتائج کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘ اس ضمن میں خود وزیراعظم ایک تلخ حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف کر رہے ہیں کہ وطن عزیز میں ہر سال500 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے‘ دوسری جانب پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ2300 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اگر اس کو سالانہ میزانیہ کے اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ کل بجٹ کا ایک تہائی ہے‘ بجلی چوری اور گردشی قرضوں کے حجم کا ذمہ دار کون ہے‘ اس سوال پر طویل بحث میں ہر ایک اپنے مخالف کو ہی موردالزام ٹھہرائے گا‘ آخر میں اس بحث کا کوئی نتیجہ نکلے نہ نکلے اصلاح احوال کی جانب کوئی پیشرفت نہ ہو پائے گی‘ بجلی چوری کا والیوم بے شک 500 ارب ہے اور قابل تشویش بھی‘ بجلی کے ضیاع سے متعلق اعدادوشمار اس سے زیادہ تشویش کے حامل ہو سکتے ہیں‘ شدت کی گرمی میں طویل لوڈشیڈنگ کی اذیت برداشت کرنے والے بجلی صارفین اپنی جگہ مشکلات کا شکار ہیں جبکہ سسٹم میں بجلی ضائع ہونے کیساتھ ایک بڑا حصہ غیر ضروری استعمال میں صرف ہو جاتا ہے‘ حکومت بجلی کے کیس میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے پرعزم ہے اسلئے ضروری ہے کہ فوری ریلیف کے اعلان کیساتھ بجلی چوری کا خاتمہ کرنے اور غیر ضروری بجلی کے استعمال کو روکنے کیلئے حکمت عملی وضع کرے اسکے ساتھ نگرانی کے پورے نظام کو ری وزٹ کیا جائے بلوں میں رعایت کیساتھ بجلی کی ترسیل کے نظام سے جڑی مشکلات کا ازالہ بھی ناگزیر ہے۔