ملک کی سیاست عرصے سے تناؤ کا شکار چلی آرہی ہے کبھی ایک تو کبھی دوسرے ایشو پر بیانات کے سلسلے میں الفاظ کی گولہ باری شروع ہو جاتی ہے بڑے بڑے پاور شوز بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں‘ سیاسی رہنماؤں کے گرما گرم بیانات اپنی جگہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سیاسی پیغامات کی بھرمار دکھائی دیتی ہے جبکہ ایک دوسرے کے خلاف سخت لہجے پورے ماحول کو تلخ بنا دیتے ہیں‘ دوسری جانب ملک کو درپیش چیلنج ہیں کہ جن میں اکانومی کے سیکٹر کی مشکلات کے باعث تو عام آدمی کیلئے گھریلو اخراجات تک پورے کرنا بھی ممکن نہیں رہا‘ بنیادی سہولیات کے فقدان کیساتھ عوام کو خدمات کے اداروں میں سروسز قابل اطمینان صورت میں نہیں مل پا رہیں جس کے نتیجے میں لوگ نجی اداروں کی جانب رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں‘ بے روزگاری عام ہو رہی ہے نوجوان ملازمتوں کیلئے پریشان ہیں جبکہ اکثریت بیرون ملک جانے کی کوششوں میں لگی رہتی ہے‘توانائی بحران شدت اختیار کرتا چلاجارہا ہے‘ اس بحران میں بھاری بل ادا کرنے والے صارفین موسموں کی شدت میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ برداشت کرنے پر مجبور ہیں بچوں کی تعلیم کے اخراجات کا حجم روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے اس ساری صورتحال کا تقاضہ عوام کو فوری ریلیف کا ہے اسکے ساتھ معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے قابل عمل حکمت عملی ترتیب دینے کا ہے‘ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف کوئی غیر معمولی بات نہیں تاہم اختلاف کا حدود سے تجاوز کرنا پریشان کن ہی رہتا ہے‘ اس کیساتھ کم از کم اہم قومی معاملات کو مل بیٹھ کر یکسو کرنابھی ناگزیر ہے‘ ضرورت یہ بھی ہے کہ درپیش مشکلات کے گرداب سے نکلنے کیلئے اس طرح سے حکمت عملی ترتیب دے دی جائے کہ جو ملک میں حکومتوں کی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہونے پائے‘ہمارے ہاں تو بدقسمتی سے اکثر اوقات ایک حکومت کے شروع کئے جانے والے بڑے اور اہم منصوبے کو دوسری حکومت برسراقتدار آکر ادھورا چھوڑ دیتی ہے‘برسوں کی تاخیر کے باعث نہ صرف لوگ اس کے ثمرات سے محروم رہتے ہیں بلکہ اس کے لئے لاگت کا والیوم وقت کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور یوں یہ پراجیکٹ تخمینہ لاگت سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے کیا ہی بہتر ہو کہ سیاسی ماحول کی گرما گرمی کو اعتدال میں لانے اوراہم قومی معاملات بات چیت کی میز پر لائے جائیں۔