گرداب سے نکلنے کیلئے حکمت عملی؟

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے نئے قرضے کے اجراء کیلئے شرائط کا سلسلہ بدستور جاری ہے‘ دوسری جانب تمام تر کوششوں کے باوجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو محصولات کے اہداف حاصل نہیں کر پا رہا‘ صرف اگست کے دوران ایف بی آر کو115 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط میں ٹیکس اہداف کا حصول شامل ہے اس سارے منظرنامے کا بوجھ ملک کے عام شہری پر کمر توڑ مہنگائی کی صورت ڈالا جا رہا ہے جبکہ یہی شہری توانائی بحران‘ بھاری یوٹیلٹی بلوں‘ بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کے باعث پہلے ہی مشکلات کا شکار چلا آرہا ہے حکومت کی جانب  سے اصلاح احوال کیلئے اقدامات میں ڈاؤن اور رائٹ سائزنگ کے عمل میں بھی عام شہری کے ہی متاثر ہونے کا خدشہ ہے جس میں ملازمین کی بڑی تعداد اگر فارغ ہوتی ہے تو ان کے گھرانوں کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اس وقت بھی میڈیا رپورٹس کے مطابق رائٹ سائزنگ کے دوسرے مرحلے میں 5 وزارتوں کی نشاندہی کی جارہی ہے‘ معروف ماہر معاشیات قیصر بنگالی اخراجات میں کمی کیلئے چھوٹے ملازمین کو ملازمتوں سے برطرف  کئے جانے کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں قیصر بنگالی نے اس ساری صورتحال میں 3 حکومتی کمیٹیوں سے استعفیٰ بھی دے دیا ہے تاہم اس حوالے سے حکومتی حلقوں کی جانب سے مکمل صورتحال کی وضاحت آچکی ہے‘ وطن عزیز اس وقت معیشت کے سیکٹر میں مشکلات کا شکار ہے ایک عرصے سے یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتیں ایک دوسرے کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دینے کیساتھ اصلاح احوال کیلئے عزم کا اظہار کرتی چلی آرہی ہیں کم اور زیادہ کے فرق سے اقدامات اٹھائے بھی جاتے رہے ہیں تاہم یہ سب کتنا ثمر آور ثابت ہو رہا ہے اس کا اندازہ قرضوں کے حجم میں روزبروز ہونیوالے اضافے سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے‘صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کسی قرضے کے اجراء میں معمولی تاخیر بھی پریشان کن ہو جاتی ہے اس حوالے سے قابل توجہ یہ بات بھی ہے کہ ذمہ دار سرکاری ادارے موجودہ مشکلات سے نکلنے کیلئے کوششوں کو اتنا وقت نہیں دے پا رہے کہ جتنا وہ نئے قرضوں کے اجراء کیلئے شرائط پر عملدرآمد کی منصوبہ بندی پر صرف کر رہے ہیں‘ وزیراعظم شہبازشریف اس سارے منظرنامے میں تشویش کا اظہار کرنے کے ساتھ اصلاح احوال کیلئے متعدد مرتبہ اپنا عزم دہرا چکے ہیں جو اس ضمن میں حکومت کے احساس و ادراک کا عکاس اور عوام کیلئے قابل اطمینان ہے ضرورت اس مجموعی منظرنامے میں ایک موثر حکمت عملی کی ہے کہ جس میں معیشت کو اپنے قدموں پر لانے کے ساتھ پورے ماحول میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے عام شہری کو ریلیف دیا جائے۔