اہم امور سے متعلق مؤقف

وفاقی دارالحکومت میں جمعرات کو ہونے والی دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ گو کہ معمول کا حصہ تھی تاہم اس میں شامل بعض نکات غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے‘ دفتر خارجہ نے پشاور میں افغان سفارتکار کے قومی ترانہ کے احترام میں کھڑے نہ ہونے سے متعلق وضاحت مسترد کردی ہے‘ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ محب اللہ سفارتی ویزے پر یہاں آئے ہیں اور انہوں نے سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ کہ ہم اس پر کاروائی کا حق محفو ظ رکھتے ہیں ترجمان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں افغان حکام کو سخت پیغام دے دیا ہے‘ بریفنگ میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف کی بھارتی ہم منصب کیساتھ ملاقات کاامکان نہ ہونے کا بھی بتایا گیا جبکہ چین کو نیول اڈے دینے سے متعلق خبروں کو بھی بے بنیاد قرار دیا گیا‘ اس سب کیساتھ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات کو فراڈ قرار دیا گیا جبکہ لبنان کے سائبر حملوں پر اسرائیل کی جواب طلبی کا کہا گیا جہاں تک قومی پرچم کے احترام اور اس حوالے سے سفارتی آداب کا تعلق ہے تو اس میں پاکستان کا موقف عالمی قاعدے قانون کے تناظر میں درست اور اصولی ہے جبکہ احتجاج کا بل کو سخت پیغام کی صورت پہنچایا جا چکا ہے تو ضرورت ہے کہ افغان حکام اس پر اپنی ذمہ داری پوری کریں‘ کابل سے اس ضمن میں تادم تحریر کوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا جہاں تک مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے انتخابات کا تعلق ہے تو یہ بھی ان ڈراموں کے جاری سلسلے کا حصہ ہیں جو بھارت آئے دن رچاتا رہتا ہے ان انتخابات کی حیثیت اس لئے بھی نہیں کہ کشمیر سے متعلق حتمی فیصلہ کرنے والے خود کشمیری عوام ہیں اس ضمن میں عالمی برادری کو برسرزمین صورتحال کی روشنی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے عالمی ادارے کو اس بات کا نوٹس لینا ہوگا کہ بھارت کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کو عرصے سے سردخانے میں ڈالے ہوئے ہے بھارت انسانی حقوق کیلئے بنائے گئے قاعدے قانون کی دھجیاں بکھیر رہاہے اگر اس مرحلے پر عالمی ادارہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرے گا تو خود اس کی ساکھ اور غیر جانبداری متاثر ہوگی۔
بی آر ٹی کے آپریشن میں توسیع؟
پشاور کی مرکزی شارع پر آپریشن کا آغاز کرنیوالی بس سروس کو اپنی مخصوص راہداری سے باہر بھی مسافروں کو پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی اس کے ساتھ بی آر ٹی سروس کو مزید توسیع دینے کا اعلان بھی ہوا‘ تاہم اس پر عملدرآمد کا ہنوز انتظار ہے‘اس حوالے سے بہتر یہ ہوگا کہ مزید تاخیر سے گریز بھی کیا جائے یہ  اسی صورت ممکن ہے جب ذمہ دار حکام اس مقصد کے لئے ٹائم فریم کا تعین کرتے ہوئے حتمی تاریخوں کا اعلان کردیں۔