حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گرماگرم بیانات کا سلسلہ کسی طور رکنے کا نام نہیں لے رہا‘ دوسری جانب ملک کو درپیش چیلنج اور ان کے نتیجے میں عوام کی مشکلا ت ترجیحات کی فہرست پر نظرثانی اورعملی اقدامات کی متقاضی ہیں‘ اس وقت مرکز میں علیحدہ جماعتیں برسراقتدار ہیں تو تین صوبوں میں علیحدہ علیحدہ حکومتیں چل رہی ہیں‘ پنجاب میں مرکز کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی اپنی حکومت ہے‘ اصلاح احوال کیلئے اقدامات متقاضی ہیں کہ مرکز اپنے حصے کا کردار ادا کرے اور صوبے اپنے اپنے لیول پر ثمر آور اقدامات یقینی بنائیں‘ اس سب کیلئے برسرزمین تلخ حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے‘ اس وقت ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے‘بجلی اور گیس کے بل تک قرض دینے والوں کی ڈکٹیشن پر بنتے ہیں‘ قرضوں کے اجراء کے ساتھ ٹیکسوں کی بھرمار میں غریب شہری ہی متاثر ہوتا ہے‘اسی غریب شہری کو بنیادی سہولیات کے فقدان کا سامنا بھی ہے جبکہ بے روزگاری کی اذیت بھی اسے ہی برداشت کرنا پڑتی ہے‘سیاسی اختلافات سسٹم کا حصہ سہی ان کو حد اعتدال میں رکھتے ہوئے کم از کم عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے ترجیحات کا تعین تو ضروری ہے اگر اس وقت عوام کو مشکلات کے گرداب سے نکالنے کیلئے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو آنے والے دنوں میں اصلاح احوال کا کام انتہائی دشوار ہو جائے گا‘ ایسے میں ضرورت ہے کہ مرکز اپنے لیول پر عوام کو ریلیف دینے کے لئے حکمت عملی ترتیب دے جبکہ صوبے اپنے حاصل اختیارات کے ساتھ ٹھوس حکمت عملی طے کریں ایسے میں متعدد امور اس نوعیت کے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں مرکز اور صوبوں کو مل کر حکمت عملی ترتیب دینا ہوتی ہے تو اس کے لئے مستقل بنیادوں پر کچھ فورم موجود بھی ہیں جبکہ مزید پلیٹ فارم بھی ترتیب پا سکتا ہے کہ جس پر مرکزی و صوبائی حکومتوں کے ذمہ دار سٹیک ہولڈر دفاتر کے نمائندے مل بیٹھ کر باہمی تعاون اور رابطے یقینی بناتے ہوئے ثمر آور نتائج کے حامل اقدامات اٹھائیں‘ فیصلہ سازی اورپلاننگ کے مراحل میں مدنظر رکھنا ہوگا اقتصادی اشاریوں میں بہتری اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے سے متعلق اعدادوشمار ہوں یامرکز اور صوبے کی سطح پر عوام کے لئے بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات‘عام شہری کے لئے اس وقت تک بے معنی رہتے ہیں جب تک اسے برسرزمین ریلیف نہیں ملتا اور یہ ریلیف مشروط ہے ٹھوس حکمت عملی سے‘ یہ صرف دوچار اجلاسوں اور اعلانات سے ممکن نہیں۔