وزیراعظم شہبازشریف نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے تمام منصوبوں کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروانے کی ہدایت جاری کردی ہے‘ وفاقی حکومت کی جانب سے محصولات کے نظام میں بہتری کیلئے ایف بی آر میں اصلاحات بھی لائی جارہی ہیں ‘اس ضمن میں ایف بی آر کے ٹرانسفارمیشن پلان کی منظوری بھی دے دی گئی ہے جبکہ ڈیجٹیلائزیشن کو بھی اہم معاشی اصلاحات کا حصہ قرار دیا جارہا ہے بعداز خرابی بسیار سہی حکومتی اقدامات کو ثمر آور نتائج کا حامل بنانے کیلئے سرکاری مشینری کی اوورہالنگ پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے ‘فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے ذمہ دار اداروں کیلئے مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ریاست میں حکومت کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے اقدامات اسی صورت بہتر نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں کہ جب ان پر عملدرآمد کی ذمہ دار سرکاری مشینری پوری طرح فعال ہو ‘بصورت دیگر اعلانات صرف ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کا حصہ بن کر فائلوں میں بند ہو جاتے ہیں‘ سرکاری سیٹ اپ کی فعالیت ہی کسی بھی سیکٹر میں موجود انفراسٹرکچر اور وسائل کے درست استعمال کو یقینی بنا سکتی ہے‘ اس وقت مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار حکومتوں کو ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کے تناظر میں مشکلات کا سامنا ہے ‘ضرورت کے باوجود کئی شعبوں میں بڑے منصوبوں پر کام شروع نہیں کیا جا سکتا ‘دوسری جانب عوام کا گلہ یہ بھی ہے کہ موجودہ انفراسٹرکچر اور مہیا مین پاور کے باوجود سروسز کی فراہمی معیار کے مطابق نہیں اس ساری صورتحال کا تقاضہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں قائم حکومتیں پہلے مرحلے پر ترجیحات کا تعین کریں‘ ان ترجیحات میں سرفہرست چیک اینڈ بیلنس کا ایسا موثر نظام رکھا جائے کہ جس میں مہیا وسائل کے ساتھ خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جائے‘ شفافیت اس انداز میں یقینی ہو کہ قومی فنڈز کے ضیاع کا کوئی امکان نہ رہے اس سب کیساتھ بدعنوانی کا خاتمہ ہو ‘تاکہ عوام کو ریلیف کا احساس ہو سکے‘ اس سب کیلئے ضروری یہ ہے کہ بند کمروں میں بیٹھ کر فائلوں میں لگی رپورٹس کی بنیاد پر فیصلے کرنے سے گریز کیا جائے ‘برسرزمین حقائق دیکھے جائیں اور ان ہی کی روشنی میں مستقبل کی حکمت عملی کی راہیں متعین کی جائیں‘ پیش نظر رکھنا ہوگا کہ محفوظ اور موثر پلاننگ وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیادیں حقائق پر رکھی جائیں‘ دیکھا یہ بھی جائے کہ آج کی ضروریات پوری کرنے کے بعد آنے والے وقت کی ضرورتیں کیا ہوں گی اور ان کو کیسے پوراکیا جا سکتا ہے‘ فیصلہ سازی اورپلاننگ کے مراحل میں سٹیک ہولڈرز اسی وقت موثر حکمت عملی دے سکتے ہیں جب ان کی دور کی نگاہ تیز ہو‘ اور وہ آنے والے وقت کی ضروریات کے تقاضے جان سکیں۔