کریک ڈاؤن کی تیاریاں؟

حکومت کی جانب سے ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کے حوالے سے وارننگ مسلسل دہرائی جارہی ہے‘وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہناہے کہ ٹیکس نہ دینے والوں پر پابندی عائد کی جائے گی‘ وہ گھر خرید سکیں گے نہ ہی گاڑی‘وزیر خزانہ پرچون اور تھوک کا کاروبار کرنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیساتھ زراعت اورپراپرٹی سے منسلک سیکٹر کو بھی ٹیکس کا پابند بنانے کا کہہ رہے ہیں‘ حکومت کی جانب سے ٹیکس جس شعبے پر بھی لگے ماسوا ئے سیلری کے‘ اس ٹیکس کا بوجھ ملک کے عام شہری کو اٹھانا پڑتا ہے‘نام جس سیکٹر کا بھی لیا جائے ٹیکس عوام پر ہی عائد ہونا ہے‘ اس کے برعکس جس سیکٹر میں کوئی ریلیف دیا جائے اس کا فائدہ اس شعبے سے منسلک لوگوں تک محدود رہتا ہے اور برسرزمین اس ریلیف کا کوئی بھی اثر دکھائی نہیں دیتا‘اگر ہو بھی تو محض خانہ پری کے طورپر ہی ہوتا ہے‘ اسی طرح ملک کا عام شہری ہر نیا قرضہ جاری ہونے پر عائد ہونے والی تمام شرائط کا لوڈ بھی برداشت کرنے پر مجبور ہوتا ہے‘ اسی بوجھ نے اب گرانی کے ہاتھوں عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘ خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے وطن عزیز کیلئے نیا قرض پروگرام منظور ہونے کیساتھ اس پیکیج کے اجراء کیلئے شرائط کی فہرست بھی سامنے آگئی ہے‘ رپورٹ کے مطابق شرائط کی فہرست میں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے فارمولے پر نظرثانی کا بھی کہہ دیا گیا ہے‘آئی ایم ایف نئی شرائط کے تحت اب صوبائی حکومتوں کے اخراجات بھی مانیٹر کرے گا‘ اس سب کیساتھ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ملک کا کوئی بھی صوبہ پنجاب کی طرز پربجلی کے بلوں میں کوئی ریلیف نہیں دیگا‘ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے دوران کوئی بھی ضمنی گرانٹ جاری نہ کرنے کاپابند ہوگا‘ حکومت جس سے قرضہ اٹھائے اس کی شرائط عام شہری پر ہی بوجھ ہیں‘اسی طرح حکومت جس پر چاہے ٹیکس عائد کرے اس کا لوڈ بھی عام شہری پر ہی گرنا ہوتا ہے‘اس ساری صورتحال کا تقاضہ ہے کہ اس عام آدمی کو درپیش مشکلات کا احساس و ادراک کیا جائے اس ضمن میں سرکاری دفاتر کے اعدادوشمار پر انحصار کرنے کی بجائے زمینی حقائق کو دیکھا جائے‘ دیکھنا ضروری ہے کہ اقتصادی اشاریوں میں جتنی بھی بہتری آئے عوام کو عملی طورپر ریلیف کا احساس کیوں نہیں ہوتا‘ اس سقم کو دور کرنا ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہئے۔