نیا ورلڈ آرڈر؟



اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے اس وقت درپیش عالمی تنازعات کی روشنی میں نئے ورلڈ آرڈر کا امکان ظاہر کیا ہے ‘جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف کے خطاب میں وطن عزیز کی خارجہ حکمت عملی کے کچھ خدوخال اجاگر ہوتے ہیں شہبازشریف کاکہنا ہے کہ اس وقت ضروری ہے کہ اسرائیل کو لگام ڈالی جائے شہبازشریف کا کہناہے کہ اسرائیلی جارحیت کو طول دینے والوں کے ہاتھ بھی خون میں رنگے ہیں‘ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ہم آزاد فلسطینی ریاست کے حامی ہیں‘ وطن عزیز میں امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے شہبازشریف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پڑوسی ممالک سے سپانسرڈ دہشتگردی ہو رہی ہے مقبوضہ کشمیر سے متعلق وزیر اعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت2019ءکے اقدامات واپس لے‘ ان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور یہ کہ خود کشمیریوں پر ان کی اپنی سرزمین تنگ ہے شہبازشریف بھارت کی جانب سے کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا بھی کہتے ہیں‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا79 واں اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا ہے کہ دنیا میں اہم ترین معاملات میں عالمی ادارے کے موثر کردار کی ضرورت موجود ہے جبکہ بات صرف مذمت اور قراردادوں تک ہی محدود دکھائی دیتی ہے‘ اس تلخ حقیقت سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے نہ ہونے سے مشرق وسطیٰ شدید خطرات سے دوچار ہے‘ اس کے ساتھ بھارت میں انسانی حقوق کی جس طرح سے خلاف ورزی ہو رہی ہے اور اس پر عالمی ادارے جس طرح خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں‘ یہ بھی اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے‘ سوالیہ نشان مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں سردخانے میں ڈالے جانے پر خود عالمی ادارے کی ساکھ پر بھی ہے‘ اس سب کے ساتھ درپیش منظرنامے میں خود اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم بھی اجلاسوں اور قراردادوں سے آگے نہیں بڑھ پا رہی ۔وقت کا تقاضہ ہے کہ عالمی ادارہ‘ اپنے آپ کو طاقتور کہلانے والے ممالک‘ انسانی حقوق کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کرنے والے ملک اور نمائندہ تنظیمیں صورتحال کا احساس کرتے ہوئے اپنا کردارادا کریں۔ اس حقیقت کو ہر مرحلے پر مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اگر آج اس اہم مرحلے پر متعلقہ فورمز اپنا رول ادا نہ کر سکے تو خود ان کی ساکھ اور غیر جانبداری بری طرح متاثر ہوگی۔