سیاسی تناؤ اور درپیش چیلنجوں کی نشاندہی

وطن عزیز کے عرصے سے شدید تناؤ کا شکار سیاسی منظرنامے میں درجہ حرارت کا گراف ایک بار پھر بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ ایک دوسرے کے خلاف بیانات کی شدت میں اضافے کیساتھ احتجاج کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری ہے‘ اس گرما گرمی اور تناؤ کے ماحول میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے قرضے کی قسط ملنے پر ملک کے ذمے بیرونی قرضوں کا والیوم مزید بڑھ گیا ہے‘ قرضوں کا حجم بڑھنے کیساتھ عوام پر گرانی کے لوڈ میں اضافہ معمول کا حصہ بن چکا ہے‘ٹیکس نیا لگے یا پیداواری لاگت بڑھے اس کا بوجھ عوام ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے‘اس پوری صورتحال میں پریشان عوام کے لئے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی تازہ رپورٹ بلاشبہ قابل اطمینان ہے تاہم اس کا ثمر آور نتائج کا حامل ہونا ہمیشہ کی طرح سوالیہ نشان ہے‘ عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری کم ہو سکتی ہے ترقی کا عمل دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے عالمی مالیاتی ادارہ اعدادوشمار کیساتھ یہ بھی بتارہا ہے کہ پاکستان میں افراط زر ایک سال میں 23.4 سے کم ہو کر9.5 فیصد تک آگیا ہے جبکہ دوسری جانب محصولات کے 12.6 سے بڑھ کر 15.4 فیصد ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے‘ اس سب کے ساتھ حالات میں بہتری کی امید سے متعلق اعدادوشمار پیش کرنے والا ادارہ یہ بھی بتا رہا ہے کہ پاکستان کو کرپشن جیسے چیلنج کا سامنا بھی ہے عالمی ادارہ اصلاحات کیساتھ گورننس میں بہتری کو بھی ناگزیر قرار دیتا ہے‘ اقتصادی اشاریئے ثابت کرتے ہیں کہ غیر یقینی کی سی صورتحال جوگزشتہ سال درپیش تھی اب بہتری کی جانب بڑھتی چلی جارہی ہے افراط زر میں کمی کا گراف قابل اطمینان ہے زرمبادلہ کی شرح مستحکم ہوتی چلی جارہی ہے جبکہ غیر ملکی ذخائر کا والیوم بھی بڑھا ہے‘اصلاح احوال کے اقدامات میں دیگر مشکلات کے ساتھ کرپشن کے خاتمے کو چیلنج قرار دیا جارہا ہے جس کیلئے اصلاحات اور گڈ گورننس کو یقینی بنانا ہوگا یہ کسی ایک اجلاس یا بریفنگ کا کام نہیں‘نہ ہی کوئی کمیٹی بنا کر اسے یکسو کرنا ممکن ہو سکتاہے یہ سنجیدہ اقدامات کا متقاضی ٹاسک ہے جس کیلئے مرکز اور صوبوں کو اپنے اپنے لیول پر کام کرنا ہوگا بصورت دیگر اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔
مریضوں کی مشکلات؟
صحت کے شعبے میں درجنوں کے حساب سے اصلاحات اپنی جگہ قابل اطمینان ہیں تاہم اکثر سرکاری علاج گاہوں میں سروسز کی فراہمی کا معیار کسی صورت قابل اطمینان قرار نہیں دیا جاسکتا‘اصلاحات اور نتائج کے درمیان یہ فاصلہ صرف اسی صورت طے ہو سکتا ہے کہ جب ذمہ دار حکام دفاتر سے نکل کر آن سپاٹ صورتحال کو خود نوٹ نہیں کرتے جب تک سب اچھا ہے کی رپورٹس اور بڑے بڑے اعداد وشمار پر انحصار کی روش ترک نہیں کی جاتی‘اس وقت تک مریضوں کے لئے برسرزمین ریلیف ممکن نہیں اور درجنوں کے حساب سے اعلانات محض اعلانات ہی رہیں گے۔