7ارب ڈالر کا مزید قرضہ

کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ملک کی معیشت پر7ارب ڈالر کا مزید قرضہ بھی ڈالا جارہا ہے اس قرضے کی منظوری گزشتہ روز انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ایگزیکٹیو بورڈ نے دی ہے‘ اس ضمن میں مہیا تفصیلات کے مطابق قرضے کی پہلی قسط 30ستمبر تک جاری ہوگی اس قسط کا حجم1.1ارب ڈالر بتایا جا رہا ہے آئی ایم ایف کی جانب سے منظور ہونے والا نیا بیل آؤٹ پیکیج37 ماہ پر محیط ہوگا اس قرضے کیلئے شرح سود5فیصد سے بھی کم بتائی جارہی ہے اس سب کیساتھ خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے فوری ضروریات پوری کرنے کیلئے کمرشل بینکوں سے40 کھرب روپے قرض اٹھائے جانے کی رپورٹ بھی جاری ہوئی ہے‘آئی ایم ایف کی جانب سے نئے قرضے کے اجراء کیساتھ پیش ہونے والی شرائط پر عملدرآمد سے متعلق وزیراعظم شہبازشریف خود کہہ چکے ہیں کہ عالمی ادارے کی تمام کڑی شرائط پوری کردی ہیں‘ اس ضمن میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ شرائط پر عملدرآمد کیلئے کوئی منی بجٹ پیش ہوگا تاہم گزشتہ روز فیڈرل بیورو آف ریونیو نے اس طرح کے کسی بھی بجٹ کی تردید کردی ہے‘ وزیراعظم شہبازشریف ملکی معیشت کے تناظر میں قرضوں کے جاری سلسلے پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں وہ اس خواہش کو بھی دہراتے ہیں کہ گزشتہ روز آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کی جانب سے پیش کردہ پروگرام آخری ہو‘ دریں اثناء حکومت کی جانب سے محصولات کیلئے مقررہ اہداف تک پہنچنے کو لازمی قرار دیا جارہاہے اس حوالے سے نان فائلرز کی کیٹگری ختم کرنے کیساتھ ٹیکس نادہندگان کے خلاف سخت کاروائی کا عندیہ دیا جارہا ہے اس کاروائی میں دیگر اقدامات کے ساتھ نان فائلرز کو کوئی بینک اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت نہیں ہوگی‘ ان کیلئے جائیداد اور گاڑیوں کی خریدوفروخت بھی بند ہوگی جبکہ یہ میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری بھی نہیں کر سکیں گے‘ حکومت کی جانب سے ملکی معیشت کو سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات اپنی جگہ‘ درپیش صورتحال متقاضی ہے کہ اس پورے منظرنامے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے غریب عوام کو ریلیف دیا جائے یہ ریلیف صرف اعدادوشمار اور بہتر ہوتے اقتصادی اشاریوں سے ممکن نہیں اس وقت بھی ایشیائی ترقیاتی بینک معیشت کو بہتری کی جانب گامزن اور مہنگائی کے کم ہونے کی بات کر رہا ہے تاہم عوام کو ریلیف کا خوشگوار احساس صرف اعلانات یا اعدادوشمار سے ممکن نہیں اس کیلئے برسرزمین عملی نتائج کی ضرورت ہوتی ہے‘ ان نتائج کیلئے ٹھوس حکمت عملی کیساتھ مرکز اور صوبوں کو اقدامات اٹھانے ہونگے۔