حقائق کا سامنا کرنا ہوگا

ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر12ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں ان ذخائر کا یہ حجم2سال5ماہ کے بعد دیکھنے کو مل رہا ہے‘ حصص کی منڈی میں نئے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں دریں اثناء خیبرپختونخوا میں صرف9ماہ کے عرصے میں صوبے کی آمدن 44 فیصد بڑھی ہے اگلے دو ہفتے کیلئے ڈیزل3.05 روپے سستا ہوا ہے مہنگائی سے متعلق بھی اعدادوشمار کے ساتھ بتایا جارہا ہے کہ مجموعی شرح کم ہوتی جارہی ہے‘ یہ سب قابل اطمینان سہی اس برسرزمین حقیقت سے چشم پوشی نہ مرکز کیلئے ممکن ہے نہ ہی خیبرپختونخوا کیلئے کہ عوام کو درپیش مسائل کا گراف مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے یہ سارے اعدادوشمارجتنے بھی قابل اطمینان ہوں عام شہری کے لئے یہ سب اس وقت تک بے معنی ہے جب تک اسے خود عملی طور پر ریلیف کا احساس نہیں ہو جاتا‘ اس شہری کیلئے بھاری بل ادا کرنے کے باوجود بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اذیت کا باعث بنی ہوئی ہے توانائی بحران مجموعی  ملکی معیشت کے ساتھ عام آدمی کی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کررہا ہے‘ اعدادوشمار مہنگائی میں جتنی چاہے کمی دکھاتے رہیں عوام کیلئے اس کا گراف روزانہ کی بنیاد پر بڑھتا چلا جا رہاہے خیبرپختونخوا کے کیس میں صوبے کی آمدن بڑھنا قابل اطمینان ہے تاہم اس کا عام آدمی کو براہ راست ریلیف کا ذریعہ بننا بھی ضروری ہے صوبے میں مارکیٹ جب تک کنٹرول میں نہیں آتی اور ایک مستقل کل وقتی نظام اس کیلئے کام نہیں کرتا اس وقت تک صارفین کو کسی خوشگوار تبدیلی کا احساس نہیں ہو پائے گا آج کل جبکہ گڈ گورننس کی اصطلاح جگہ جگہ استعمال ہو رہی ہے اگر اسی کو عملی نتائج کا حامل بنایا جاتا ہے اور اضلاع کی سطح پر انتظامیہ کے ساتھ دیگر متعلقہ سٹیک ہولڈر ادارے اپنی ذمہ داریاں بہتر طریقے سے تقسیم کرکے کام کرتے ہیں تو عوام کو ریلیف مل سکتا ہے‘صوبے میں سروسز کے ذمہ دار اداروں کے حوالے سے جتنے بھی اعدادوشمار دیئے جائیں جب تک ان کے نتیجے میں لوگوں برسرزمین ریلیف دکھائی نہ دے ان کیلئے سب کچھ بے معنی رہ جاتا ہے حکومت مرکز میں ہو یا کسی بھی صوبے میں اس کیلئے لازمی ہے کہ صرف اعدادوشمار اور مثبت رپورٹس پیش کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ تمام اقدامات کے عملی نتائج یقینی بنانے کے ساتھ اچھی طرز حکمرانی کو صرف اصطلاح کی بجائے عملی صورت دینے پر توجہ دیں بصورت دیگر سب کچھ زبانی کلامی ہی رہے گا۔