چیئرمین ایف بی آر کا اعتراف

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے کھلے دل کے ساتھ اعتراف کیا ہے کہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ ٹیکس غریب شہری ادا کرتا ہے جبکہ امیر پورا ٹیکس جمع نہیں کراتا‘ غریب شہری کیلئے ٹیکس کا حجم چیئرمین ایف بی آر 17 سے 18 فیصد بتاتے ہیں‘ امیروں کی جانب سے ٹیکس ادا نہ کرنے کا نتیجہ موجودہ معاشی مشکلات کی صورت سامنے ہے کہ جس میں ملک اب تک کھربوں روپے کا مقروض ہو چکا ہے‘ اب تک کے مہیا اعداد و شمار کے مطابق انکم و سیلز ٹیکس کی مد میں 5 کھرب روپے سالانہ کمی ریکارڈ ہو رہی ہے‘ اس برسرزمین حقیقت سے انحراف کی گنجائش نہیں کہ حکومت کی جانب سے کوئی ٹیکس کسی بھی سیکٹر میں ماسوائے تنخواہوں کے اگر عائد ہوتا ہے تو اس کی ادائیگی غریب شہری کو ہی کرنا پڑتی ہے اس کے برعکس حکومت کی جانب سے کسی بھی سیکٹر میں کوئی مراعات و سہولیات دی جائیں تو ان کا فائدہ مخصوص لوگوں تک ہی محدود رہتا ہے۔ حکومت مصنوعات پر ٹیکس عائد کرتی ہے تو وہ فوری طور پر صارف کے خوردہ قیمت میں شامل کر دیا جاتا ہے‘ حکومت پرچون فروش پر ٹیکس عائد کرے تو وہ اسی وقت اپنی سیلز انوائس میں اسے ڈال دیتا ہے اس طرح سب بری الذمہ ہو جاتے ہیں جبکہ ٹیکس غریب صارف ہی کو ادا کرنا پڑتا ہے‘ اسی طرح پیداواری لاگت میں بھی کسی جگہ کوئی اضافہ ہو جائے تو اس کا لوڈ عام شہری پر ہی ڈال دیا جاتا ہے‘ یہ عام شہری ملک کو معیشت کے شعبے میں درپیش مشکلات کا قطعاً ذمہ دار نہیں اس کے باوجود جب حکومت قرض اٹھاتی ہے تو قرض دینے والوں کی ساری شرائط کا لوڈ اسی صارف پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ابھی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے قرضے کے اجراء کے لئے عائد شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے گیس کے ٹیرف میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی منظوری اوگرا نے دے دی ہے جبکہ اضافے کا اعلان ایڈوائس کی منظوری کے بعد ہو گا‘ مہیا تفصیلات کے مطابق گیس 8.71 فیصد مہنگی ہو گی‘ اوگرا کی جانب سے جس ٹیرف کی منظوری دی گئی ہے اس کا حجم 1778.35 روپے بتایا جا رہا ہے‘ گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ صرف گھریلو صارفین کے لئے پریشان کن ہو گا بلکہ مجموعی معاشی منظر نامے میں پیداواری لاگت پر بھی اثر انداز ہو گا جس کا بوجھ بھی عوام ہی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ کیا ہی بہتر ہو کہ گرما گرم سیاسی منظر نامے میں فیصلہ سازی کے ذمہ دار دفاتر حکمت عملی کی ترتیب میں عوام کی مشکلات کے ازالے کو ترجیحات کا حصہ بنا لیں۔