اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کے ساتھ جو بھی وضاحت آ جائے وہ اپنی جگہ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق خیبرپختونخوا کے ذمے قرضوں کے انبار میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے‘ رپورٹس کے مطابق صرف ایک سال کے عرصے میں قرضوں کی شرح 28فیصد سے بھی زیادہ بڑھی ہے صرف ایک سال کی مدت میں قرضوں کا حجم149 ارب روپے بڑھا ہے قرضوں کا مجموعی والیوم رپورٹ کے مطابق680 ارب روپے ہو چکا ہے‘ اس ساری صورتحال میں حکومت کے ساتھ کام کرنے والے بین الاقوامی قرض دہندگان نے سنگین نتائج کا انتباہ بھی جاری کر دیا ہے اس وقت وطن عزیز کا سیاسی منظرنامہ شدید گرما گرمی کا شکار چلا آرہا ہے دوسری جانب صوبوں کی حد تک دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا میں اس گرما گرمی کا گراف نسبتاً بلندی پر ہے‘ خیبرپختونخوا کی معیشت ایک عرصے سے اصلاح احوال کی متقاضی چلی آرہی ہے صوبے کا مخصوص جغرافیہ‘ امن وامان کی صورتحال اور لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی صوبے کی مجموعی اکانومی پر پوری طرح اثر انداز ہے اس حقیقت سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں کہ کسی بھی ریاست یا اس کی کسی بھی اکائی میں اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ اور سرمایہ کاری کیلئے پرامن ماحول اور سیاسی استحکام بھی دیگر عوامل کے ساتھ ضروری ہوتا ہے‘ صوبے کی بندرگاہ سے دوری اور دور دراز علاقوں میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کا فروغ متقاضی اس بات کا بھی ہے کہ یہاں سرمایہ کاری کیلئے مراعات و سہولیات میں اضافہ ہو‘اس سب کیساتھ کسی بھی صوبے میں قرضوں کی شرح میں اضافے کی ذمہ داری حکومت کی فنانشل ٹیم کیلئے سوالیہ نشان ہی رہتی ہے خیبرپختونخوا کی اقتصادی حالت دوسرے صوبوں سے مختلف اس حوالے سے بھی ہے کہ اس صوبے کی معیشت ایک طرف قرضوں کے انبار تلے دبی جارہی ہے تو دوسری جانب اس صوبے کی بھاری رقم وفاق کے ذمے واجب الادا چلی آرہی ہے یہ رقم مرکز اور صوبوں میں الگ الگ جماعتوں کی حکومتوں میں بھی رہی ہے تو ایسے وقت میں بھی کلیئر نہیں ہو پائی جب وفاق اور خیبرپختونخوا میں ایک ہی جماعت برسراقتدار تھی‘ قرض اٹھایا جانا اور پھر اسکی ادائیگی کیلئے انتظام اپنی جگہ ریاست اور اسکی کسی بھی اکائی کیلئے اولین ترجیح قرضوں کی بجائے اکانومی کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کو دی جانی چاہئے کیا ہی بہتر ہو کہ مزید خرابی کا انتظار کئے بغیر اصلاح احوال کو ترجیحات میں شامل کردیا جائے۔