جواب طلب سوالات

وطن عزیز کے عرصے سے گرما گرمی کا شکار سیاسی منظر نامے میں متعدد امور انتہائی قابل توجہ اور موثر اقدامات کے متقاضی چلے آرہے ہیں ملک میں امن وامان کی صورتحال خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں درپیش حالات قومی قیادت کے مل بیٹھ کر حکمت عملی ترتیب دینے کے متقاضی ہیں اس ضمن میں آل پارٹیز کانفرنس کا عندیہ آچکا ہے تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی اعلان تادم تحریر سامنے نہیں آیا دوسری جانب معیشت کا سیکٹر اصلاح احوال کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کا متقاضی ہے اس شعبے میں اصلاحات کے ثمرآور نتائج کیلئے ضروری ہے کہ دیگر عوامل کیساتھ امن وامان کی صورتحال بھی بہتر ہو جبکہ ملک میں سیاسی استحکام بھی یقینی ہو اس کے بعد سرمایہ کار پورے اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری کیلئے تیار ہوتا ہے اقتصادی سیکٹر میں درپیش مشکلات ہی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے جبکہ عام شہری اس منظر نامے میں کمر توڑ مہنگائی کا سامنا کر رہا ہے توانائی بحران مجموعی اقتصادی صورتحال کو متاثر کرنے کیساتھ عام صارف  کے لئے بھی اذیت ناک صورت اختیار کئے ہوئے ہے‘ یہ صارف بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے کے باوجود بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے پریشان ہے بجلی کے کیس میں ترسیل کا نظام الگ سے مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے اس سب کیساتھ گزشتہ روز انڈس ریورسسٹم اتھارٹی نے سنگین ترین خطرات کا آبی بحران کے حوالے سے بتایا ہے اتھارٹی نے صوبوں کیلئے پانی کے کوٹے میں کمی کے خدشات بھی ظاہر کئے ہیں اتھارٹی کا کہنا ہے کہ تربیلہ‘منگلا اور چشمہ میں پانی کے ذخائر کم رہ گئے ہیں توانائی بحران اور نئے آبی ذخائر کی تعمیر کا معاملہ بھی حل طلب ہے کہ جس میں وسیع مشاورت ناگزیر ہے کیا ہی بہتر ہو کہ کم از کم اہم قومی معاملات پر مکالمے کا اہتمام یقینی بنایا جائے اور اس کیلئے سینئر رہنما اپنا کردار ادا کریں تاکہ ثمرآور نتائج کے حامل فیصلے سامنے آسکیں۔
مارکیٹ کنٹرول؟
رمضان المبارک کی آمد سے بہت پہلے اجلاسوں کا انعقاد‘بڑے بڑے اعلانات‘مارکیٹ کنٹرول کی حکمت عملی سے متعلق رپورٹس معمول کا حصہ بن چکی ہیں ان سطور کی اشاعت تک رمضان کا نصف مہینہ گزر چکا ہے جبکہ مارکیٹ کنٹرول کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے عملی نتائج برسرزمین دکھائی نہیں دے رہے رہی سہی کسر ملاوٹ اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت پوری کر دیتی ہے کیا ہی بہتر ہو کہ دیر آید درست آید کے مصداق ہی سہی اب بھی اصلاح احوال یقینی بنانے کیلئے آگے بڑھا جائے اس میں تاجر تنظیموں اور عوامی نمائندوں سے معاونت بھی لی جائے تاکہ غریب عوام کو ریلیف کا احساس ہو۔