خیبر پختونخوا کابینہ کا گزشتہ روز ہونیوالا اجلاس اپنے ایجنڈے پر موجود نکات کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہی قرار دیاجاسکتا ہے۔ کابینہ نے ڈیرہ موٹر وے اور دیر ایکسپریس وے کی باقاعدہ منظوری دیدی ہے صوبے میں مختلف درجوں کی علاج گاہوں کو اپ گریڈ کرنے کیلئے فنڈز بھی منظور ہوگئے ہیں۔ صوبائی کابینہ نے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کیلئے بھی رقم کی منظوری دے دی ہے عین اسی روز جب کابینہ کے اجلاس میں بلدیاتی الیکشن کیلئے فنڈز منظور ہوئے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ محمود خان نے نئے بلدیاتی نظام میں صوبائی دارالحکومت کے نئے نام کی منظوری دیدی ہے۔اس کیساتھ ہی ایک الجھا ہوا معاملہ سلجھاؤ کی جانب گامزن ہوگیا ہے۔ صوبے کے دارالحکومت کا نام اس وقت الجھ کر رہ گیا جب لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں پشاور کو سٹی لوکل گورنمنٹ جبکہ لوکل کونسل بورڈ کی جانب سے کیپٹل میٹروپولیٹن سٹی رکھا گیا۔ اس پر ماہرین کی جانب سے تکنیکی بنیادوں پر سوالات سامنے آئے اور کیس محکمہ قانون کو بھجوا دیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ محمود خان نے دارالحکومت کے لئے نام کیپٹل میٹرو پولیٹن منظور کرلیا ہے۔ قاعدے کے مطابق یہ معاملہ اب حتمی منظوری کیلئے صوبائی کابینہ کو ارسال کر دیاگیا ہے۔ وطن عزیز میں بلدیاتی نظام ایک عرصے سے تجربات کی زد میں ہی رہا ہے تاہم گراس روٹ لیول پر کام کرنے والے اس نظام میں ہر وقت بہتری کیلئے ترامیم کی گنجائش رہتی ہے۔ اس میں تکنیکی مہارت کیساتھ برسرزمین ضروریات کا احساس ناگزیر ہے۔ خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور آبادی میں اضافے، بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان اور لاکھوں افغان مہاجرین کی طویل میزبانی میں انفراسٹرکچر اور شہری سہولیات کے حوالے سے انتہائی مشکلات کا شکار چلا آرہا ہے۔ شہر میں وسائل اور مسائل کے درمیان عدم توازن نے صورتحال کو تشویشناک بنا رکھا ہے سڑکیں ٹریفک کیلئے کم پڑ گئی ہیں تو خدمات کے اداروں میں موجود سہولیات ضروریات کی نسبت سے انتہائی کم ہیں۔ اس سب کیساتھ بدانتظامی اور مہیا وسائل کے درست استعمال کی بجائے نئے وسائل اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے موجود تعمیرات پر انحصار کی بجائے نئی عمارتیں بنانے کا رجحان نہ صرف خزانے پر بوجھ رہا ہے بلکہ مسائل کی شرح بھی روز بڑھتی رہی ہے بعد از خرابی بسیار مجموعی طورپر صوبائی حکومت نے مہیا وسائل اور انفراسٹرکچر کے درست استعمال کی حکمت عملی پر کام شروع کیا ہے اور اس کی ابتداء ہیلتھ سیکٹر میں کر دی گئی ہے جہاں مقامی ہسپتالوں کی حالت بہتر بناکر لوگوں کو گھر کے قریب سروسز فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اس سے نہ صرف عام شہری کو ریلیف ملے گا بلکہ بڑے شہروں میں اداروں پر بوجھ کم ہوگا۔ رش میں کمی کیساتھ خدمات کا معیار خود بخود بہتری کی جانب جائیگا جہاں تک پشاور کا تعلق ہے تو یہاں نئے بلدیاتی نظام میں اور اسکے آپریشنل ہونے سے پہلے بھی ضرورت موجود انفراسٹرکچر کی حالت بہتر بنانے اور اس کے درست استعمال کیلئے جامع حکمت عملی کی ہے اس میں تمام سٹیک ہولڈر اداروں کو ایک چھت تلے اکٹھا کرکے مؤثر اور قابل عمل پلاننگ کی ضرورت کا احساس ناگزیر ہے صفائی اور دیگر میونسپل سروسز سے لیکر ٹریفک سے جڑے معاملات اگر سلجھ جاتے ہیں تو لوگوں کو ریلیف کا احساس خود بخود ہونے لگے گا۔ منڈی کنٹرول میں آنے پر ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کا سلسلہ ختم ہوگا اس سب کیلئے مختصر المدتی حکمت عملی میں ضرورت صرف پہلے سے موجود وسائل اور افرادی قوت کے درست استعمال کیلئے حکمت عملی کی ہے۔