منگل کے روز اسلام آباد اور پشاور میں منعقدہ کابینہ اجلاسوں نے بعض اہم فیصلوں کی منظوری دی جن کا ثمر آور ہونا ان پر عملدرآمد کے پورے عمل کی کڑی نگرانی سے مشروط ہے‘ وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومتوں نے اپنے اپنے اجلاسوں میں ایک ایک تجویز ملتوی بھی کی‘وفاقی کابینہ نے10 ادویات کی قیمتیں بڑھانے سے متعلق سمری مسترد کی جبکہ پشاور میں صوبائی کابینہ نے تنخواہوں پر ایڈہاک الاؤنس کم کرکے 15فیصد کرنے اور پنشن3 سال کی اوسط تنخواہ کے مطابق کرنے کے فیصلے ملتوی کردیئے‘ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حجاج کرام سے وصول اضافی رقم واپس کرنے کا حکم بھی دیا گیا‘ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ قابل اطمینان ہے‘کمر توڑ مہنگائی کے مارے عوام پہلے ہی ادویات مہنگی خرید رہے ہیں ان شہریوں کو دواؤں کی طلب اور رسد کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے ساتھ ہی غیر معیاری ادویات کی فروخت متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ثبت کر رہی ہے‘ صوبائی دارالحکومت پشاور میں گزشتہ روز ہونیوالی ایک کاروائی میں 3.5 کروڑ روپے کی غیر رجسٹرڈ ادویات برآمد ہوئی ہیں‘ رپورٹ کے مطابق نیشنل ٹاسک فورس نے غیر رجسٹرڈ ادویات کی فروخت میں ملوث25 سٹور سیل کردیئے ہیں‘ دواؤں کے کیس میں قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھنے کے ساتھ ضروری ہے کہ معیار کو بھی ہر حوالے سے یقینی بنایا جائے‘ خیبرپختونخوا حکومت نے دستور میں ترمیم کے بعد صوبوں کو حاصل ذمہ داریوں میں موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی منظور کرکے پہل کردی ہے اس حوالے سے مختلف اقدامات تجویز کردیئے گئے ہیں جنکے نتیجے میں گرین ہاؤس گیس کا اخراج بھی کم ہوگا صوبے میں انصاف فوڈ کارڈ کیلئے بینک آف خیبر کے ساتھ معاہدے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے حکومت کی سطح پر عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ہونے والے فیصلے قابل اطمینان ہی ہوتے ہیں تاہم لوگوں کیلئے یہ صرف اس صورت ریلیف کا ذریعہ بنتے ہیں کہ جب انہیں برسرزمین مثبت نتائج عملی صورت میں نظرآئیں‘ ہمارے ہاں مثبت فیصلوں اور ان پر عملدرآمد کے درمیان وسیع خلیج رہتی ہے جس کا احساس وزیراعلیٰ محمود خان کے گزشتہ دنوں عملی نتائج کے حصول سے متعلق بیان میں دکھائی دیتا ہے اگر صوبے میں اس سقم کو دور کر دیا جاتا ہے تو بھی ایک طرح سے پہل ہی ہوگی‘اسکے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنا ہو یا پھر عوامی سطح پر کوئی اور اقدام عملی صورت نتائج کا حامل بنانا ہو‘ ضروری ہے کہ اس پر عملدرآمد کے مراحل میں عوام کی شرکت یقینی بنائی جائے اس سے گراس روٹ لیول تک رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔
سیوریج سسٹم؟
وطن عزیز میں طوفانی بارشوں کے دوران پیش آمدہ مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل نکاسی آب کے حوالے سے سامنے آئی ہے حسب معمول اعلیٰ سطح پر اس ضمن میں آگے چل کر بڑے بڑے منصوبوں کی باتیں بھی ہوں گی اور کثیر فنڈز بھی طلب کئے جائیں گے‘ ائرکنڈیشنڈ کمروں میں ملٹی میڈیا پر جگہ جگہ بریفنگ بھی ہو گی اور کئی کئی سال پر محیط منصوبوں کا اعلان بھی ہوگا یہ سب اپنی جگہ اہم سہی اس وقت ضرورت آبادیوں کی سطح پر موجود نکاسی آب کے انفراسٹرکچر کو پلاسٹک شاپنگ بیگز اور تعمیراتی ملبے سمیت ہر قسم رکاوٹوں سے آزاد کرنے کی ہے اس کیلئے منظم اور عملی نتائج کی حامل صفائی مہم چلانا ہوگی جوصرف فوٹو سیشن تک محدود نہ رہے اس کے ساتھ ضرورت آبی گزرگاہوں کو کلیئر کرنے کی ہے اس سب کیلئے اضافی فنڈز کی ضرورت بھی نہیں ہوگی اور لوگوں کو ریلیف بھی ملے گا۔