عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان سے ایک مرتبہ پھر ڈومور کا مطالبہ کر دیا ہے‘ دریں اثناء وزارت خزانہ نے وزیراعظم شہباز شریف کو آئی ایم ایف کا تجویز کردہ نئے بجٹ کا مسودہ بھی پیش کر دیا ہے‘اس میں بجٹ کا حجم 18 ہزار روپے تجویز کیا گیا ہے جس میں صرف سود کی ادائیگی کیلئے 9 ہزار 700 روپے مختص کئے جا رہے ہیں‘ وطن عزیز کے انتہائی گرما گرمی کے شکار سیاسی ماحول میں شدید ہلچل دیکھی جا رہی ہے‘ ایک عرصے سے جاری سیاسی تناؤ اور کشمکش متقاضی ہے کہ ایک دوسرے کے مؤقف کو سن کر درجہ حرارت کو اعتدال میں لایا جائے اس کیساتھ ملک کو درپیش مسائل کے حل کیلئے بھی متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے جس کیلئے بھی ایک دوسرے کی بات سننا ہو گی‘ مدنظر رکھنا ہو گا کہ اس وقت ملک اقتصادی شعبے میں سخت مشکلات کا شکار ہے‘ اقتصادی شعبے کی مشکلات سے تعمیر و ترقی کا پورا عمل بھی متاثر ہو کر رہ گیا ہے‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کسی بھی ریاست میں روزمرہ امور کی انجام دہی اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں کیلئے فنڈز کی ضرورت رہتی ہے تاہم انکار اس حقیقت سے ممکن نہیں کہ خدمات سمیت متعدد شعبوں میں صرف نگرانی کا محفوظ نظام دیکر عوام کو سہولت پہنچائی جا سکتی ہے‘ وطن عزیز میں اس وقت مہنگائی کا بڑا مسئلہ ہے اسکے بہت سارے عوامل میں سے ایک مارکیٹ کنٹرول کیلئے کوئی مؤثر نظام نہ ہونا بھی ہے‘ اس کے نتیجے میں شہریوں کو مصنوعی مہنگائی‘ صحت و زندگی کیلئے خطرہ بننے والی ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کے نتیجے میں اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے ایسے میں صرف مارکیٹ کی نگرانی کا مؤثر نظام ان مشکلات کے گراف کو کم کر سکتا ہے‘ بات صرف اس ضمن میں احساس و ادراک کے ساتھ مؤثر حکمت عملی تیار کرنے اور اس پر عمل درآمد کیلئے فول پروف میکنزم دینے کی ہے‘ دوسری جانب ملک کا عام شہری اپنے بجٹ میں سے نہایت مشکل کیساتھ گنجائش نکال کر بجلی و گیس کے بل جمع کراتا ہے اس شہری کو اس سب کے باوجود گھنٹوں بجلی و گیس ہی کی لوڈشیڈنگ سے گزرنا پڑتا ہے‘ طلب کے مقابلے میں بجلی اور گیس کی کم رسد حقیقت سہی تاہم لائن لاسز اور ضیاع بھی اپنی جگہ حقیقت ہے۔ ایسے میں اضافی لوڈشیڈنگ علیحدہ سے اذیت ناک ہے کہ جو کسی بھی علاقے میں بجلی کا بل جمع نہ کرانے والوں کی سزا کے طور پر ان لوگوں کیلئے بھی کی جاتی ہے کہ جو بڑی باقاعدگی سے بل جمع کراتے ہیں‘ اوور بلنگ اور بلوں میں تصحیح کیلئے دفاتر کے چکر لگانا اپنی جگہ ہے‘ مہینے کے آخری دنوں میں بجلی و گیس بلوں کی ادائیگی رکھا جانا متعلقہ محکموں کی آمدنی میں اضافہ کر دیتا ہے یہ اضافہ ان تنخواہ دار صارفین کی وجہ سے ہوتا ہے کہ جو مہینے کے اختتام پر بل جمع کرانے کی گنجائش نہیں رکھتے‘ ان صارفین کو ہر ماہ اسکے بدلے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ سروسز کے دوسرے شعبوں میں میونسپل خدمات بھی صرف نگرانی اورقواعد پر عمل درآمد سے بہتر ہو سکتی ہے۔