وفاقی حکومت کی جانب سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کو ایک سال میں غیر ضروری اخراجات کی مد میں 300 ارب روپے تک کمی لانے کے لئے منصوبہ پیش کر دیا ہے‘ اس منصوبے کے نمایاں خدوخال میں صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں میں فنڈنگ نہ کرنا‘ صوبائی حکومت کے ماتحت یونیورسٹیوں کو فنڈز نہ دینا‘ ایک سال سے خالی گریڈ 1 سے 16 کی تمام اسامیوں کو ختم کرنا اور وفاقی وزارتوں کی جانب سے نئی گاڑیاں خریدنے پر مکمل پابندی شامل ہے۔ اس سب کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال میں کوئی نئی یونیورسٹی نہیں بنائے گی‘ وفاق کے ساتھ صوبوں میں بھی بجٹ کی تیاری کا کام جاری ہے اور حسب معمول امکانات کے حوالے سے رپورٹس ذرائع ابلاغ جاری کر رہے ہیں۔ جہاں تک کفایت شعاری کا تعلق ہے تو وطن عزیز کو مرکز اور صوبوں کی سطح پر اس کے لئے بہت بڑے پروگرام کی ضرورت ہے‘ اس میں آئی ایم ایف کے حوالے سے شرائط پر عمل درآمد تو مجبوری بن چکا ہے ضرورت آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ سے ہٹ کر بھی کفایت شعاری پالیسی میں غیر ضروری اخراجات کم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ہے‘ ان اقدامات میں عموماً ملبہ نچلے درجے کے ملازمین پر گرتا ہے جبکہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کا لوڈ بھی غریب عوام پر ہی بڑھتا ہے‘ فیصلے کفایت شعاری سے متعلق ہوں یا پھر ملک کی اکانومی سمیت دیگر اہم سیکٹرز کے حوالے سے‘ ضرورت ان فیصلوں میں وسیع مشاورت کی ہے‘ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر ہونے والے فیصلے بعد میں تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی یقین دہانیوں میں سے ایک یونیورسٹیوں کی فنڈنگ روکنا بھی شامل ہے‘ اس وقت خیبر پختونخوا میں متعدد سرکاری یونیورسٹیاں مالی مشکلات کا شکار ہیں دستور میں ترمیم کے بعد سے جبکہ تعلیم صوبائی سبجیکٹ قرار پایا ہے‘ جامعات کے معاملات یکسو نہیں ہو پا رہے ایسے میں ایک حتمی فیصلے سے پہلے صوبوں کے ساتھ مشاورت اور ماہرین کی آراء سے حکمت عملی بہتر نتائج دے سکتی ہے۔ درپیش حالات متقاضی ہیں کہ بجٹ اہداف کفایت شعاری کیساتھ بدانتظامی کے خاتمے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے‘ بدعنوانی کے راستے بند کئے جائیں‘ سرکاری گاڑیوں کی خرید روکنے کیساتھ موجود گاڑیوں کا کفایت شعاری کیساتھ ضروری استعمال یقینی بنایا جائے‘ سرکاری دفتری امور کوجدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے آسان اور کم خرچ بنایا جا سکتا ہے‘ خدمات کے اداروں میں نئے منصوبوں کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم ضروری یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے کے مرحلے میں مہیا وسائل اور افرادی قوت کا درست استعمال یقینی بنایا جائے‘ اس مقصد کیلئے صرف نگرانی کا محفوظ نظام دے کر بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔