غور طلب معاملہ

وطن عزیز میں اگلے مالی سال کا میزانیہ پیش ہونے سے قبل امکانات پر مبنی خبریں تواتر کے ساتھ آ رہی ہیں۔ خبر رساں ایجنسی کی منگل کے روز جاری ہونے والی رپورٹ میں ملک بھر میں ادویات مزید مہنگی ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ کی سفارش پر ادویات کی سیل پر جی ایس ٹی نافذ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے‘ اس حوالے سے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ متعلقہ دفاتر سے اس ضمن میں سفارشات بھجوا دی گئی ہیں۔ وطن عزیز کی اقتصادی حالت میں قرضوں کا حصول اور اس کیلئے قرض دینے والوں کے مطالبات تسلیم کرنا معمول بن چکا ہے‘ ان مطالبات کی منظوری کے ساتھ گرانی کا گراف مسلسل بڑھتا چلا آ رہا ہے‘ ایسے میں ادویات پر سیلز ٹیکس مجموعی طور پر تمام غریب اور متوسط طبقوں کے شہریوں کیلئے پریشان کن ہو سکتا ہے تاہم اس کا زیادہ اثر ان مریضوں کے کیس میں ہو سکتا ہے کہ جو مستقل بنیادوں پر عمر بھر کیلئے دوائیاں استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں‘ وطن عزیز میں نگران حکومت کے دور میں روزمرہ استعمال کی ادویات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کیا گیا اب اس ڈی ریگولیشن کے بعد دوا ساز کمپنیاں قیمتوں کا تعین خود کرنے کے ساتھ اوپر سے جی ایس ٹی کو بھی شامل کرتی ہیں تو قیمتوں میں ہونے والا اضافہ تشویشناک ہو جائے گا۔ ملک کا غریب شہری اس وقت پہلے ہی گرانی کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے‘ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیز میں معیشت کھربوں روپے کے قرضے تلے دبی ہوئی ہے اور اس وقت قرضے حاصل کرنے ہی کو بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ قرضوں کے حصول کیلئے شرائط کی فہرست پر عمل درآمد بھی مجبوری ہے اس کے ساتھ چشم پوشی اس لئے بھی ممکن نہیں کہ ادویات کا معاملہ زیادہ تشویشناک ہے اس لئے اس سیکٹر میں عوام کو مزید متاثر کرنا زیادتی کے مترادف ہے۔ ملک کے اقتصادی منظر نامے میں ادویہ ساز اداروں کو بھی مسائل ضرور درپیش ہیں اور ان اداروں کی مشکلات کا ازالہ بھی ضروری ہے تاہم خصوصی کیس کے طور پر فارما انڈسٹری کو خصوصی مراعات اور سہولیات پر مشتمل پیکیج دے کر عوام کیلئے ریلیف کی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے۔ حکومتی مراعات اور سہولیات کے ساتھ خود فارما انڈسٹری غیر ضروری اخراجات پر قابو پا کر عام شہری کو سہولت دے سکتی ہے‘ ادویات کیس میں ضروری یہ بھی ہے کہ مارکیٹ میں تمام دوائیاں طلب کے تناسب سے موجود ہوں بلیک مارکیٹ کی کوئی نوبت نہ آنے دی جائے۔ ادویات کا معیار انسانی صحت اور زندگی سے جڑا ہوا معاملہ ہے اس پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہونی چاہئے اس سب کیلئے ذمہ دار انتظامیہ تاجر برادری اور فارما انڈسٹری کے نمائندہ افراد کی معاونت سے حکمت عملی ترتیب دے سکتی ہے۔ ہیلتھ سیکٹر کے ادارے ہوں یا پھر ادویہ سازی کی صنعت اس سب سے متعلق فیصلوں میں ارضی حقائق مدنظر رکھنا اور عوام کی مشکلات کا احساس ضروری ہے۔