وفاقی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ کا حجم کم کر دیا ہے‘ میڈیا رپورٹ کے مطابق اگلے مالی سال 2024-25ء کے لئے ایچ ای سی کا بجٹ 65 سے کم کر کے 25 ارب روپے کر دیا گیا ہے‘ اس کے ساتھ ہی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ کو صرف وفاق کی یونیورسٹیوں تک محدود کر دیا گیا ہے‘ اس کے ساتھ ہی اب ایچ ای سی کی جانب سے صوبوں میں جامعات کو فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ ختم کر دیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق ایچ ای سی نے 160 سرکاری یونیورسٹیوں کے لئے 126 ارب روپے مانگے تھے‘ دوسری جانب پلاننگ کمیشن نے فنڈ 59 ارب سے کم کر کے 21ارب روپے کر دیا ہے۔ حکومت کے فیصلے پر وائس چانسلروں کی کمیٹی نے اس صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں ایچ ای سی کا بجٹ 65 ارب روپے تھا جبکہ اب 25 ارب پر آ رہا ہے۔ تعلیم مرکز اور صوبوں میں برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت کی ترجیحات میں نمایاں سیکٹر کی حیثیت رکھتی ہے اس ضمن میں کم اور زیادہ کے فرق سے ہر حکومت اقدامات بھی اٹھاتی رہتی ہے‘ سکولوں کی سطح پر صوبوں میں فنڈز کا بڑا حصہ خرچ ہو رہا ہے‘ صوبوں کی سطح پر سرکاری سکولوں کے معیار اور نتائج سے متعلق بحث میں پڑے بغیر اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں گزشتہ دو دہائیوں میں یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے‘ اسی مدت کے دوران دستور میں ہونے والی ترمیم کے نتیجے میں تعلیم کو صوبائی سبجیکٹ قرار دیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں متعد سرکاری یونیورسٹیاں اس وقت شدید مالی دشواریوں کا سامنا کر رہی ہیں‘ یہاں تک کہ بعض میں تو تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہوتی ہے‘ جامعات کی مالی حالت کمزور ہونے پر تحقیق کے ساتھ توسیع کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ مرکز اور صوبے مل بیٹھ کر یونیورسٹی کے معاملات پر بات چیت کریں اس کے بعد ہر صوبہ اپنی سطح پر پالیسی بنائے اور جامعات کو فوری امداد کی فراہمی کے ساتھ خود انحصاری کی جانب لایا جائے۔ یونیورسٹیوں کے اپنے اثاثوں کا جائزہ لے کر ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ یقینی بنایا جائے‘ سیکنڈ شفٹس کے ذریعے بھی آمدنی بڑھائی جا سکتی ہے جبکہ اس سے داخلوں کی تعداد بھی بڑھے گی‘ اس وقت بھی ہر سال طلباء و طالبات کی بڑی تعداد سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلوں سے رہ جاتی ہے جس کے بعد انہیں نجی جامعات جانا پڑتا ہے جہاں بھاری چارجز ادا کرنا مجبوری ہوتا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ فروغ تعلیم اور جامعات کے مالی استحکام کیلئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کمی کی بجائے اضافہ ہو اور جب تک یونیورسٹیاں خود انحصاری تک نہیں پہنچ جاتیں اس وقت تک مالی سپورٹ جاری رکھی جائے۔