بجٹ اور مطالبات



انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے3سالہ قرض پروگرام کیلئے تجاویز کامسودہ پاکستان کو فراہم کردیا گیا ہے‘ یہ مسودہ ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب حکومت اگلے مالی سال کیلئے قومی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس19فیصد کرنے کیساتھ تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس عائد کرنے کا بھی کہا گیا ہے‘ آئی ایم ایف کی جانب سے اگلے مالی سال میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف1290 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز بھی ہے‘ اس ضمن میں بتایا جارہاہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے مذکورہ ہدف1250 ارب روپے مقرر کرنے پر اصرار کیا جا رہاہے اب تک کی تجاویز میں1500 ارب روپے کے نئے ٹیکس اور ڈیوٹیاں عائد کرنے جبکہ100 اشیاءپر سے ٹیکس اور ڈیوٹی و چھوٹ ختم کرنے کی تجویز بھی ہے‘اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اگر جی ایس ٹی کے معاملے میں آئی ایم ایف کے کہنے پر ایک فیصد اضافہ کیا جاتا ہے تو صرف اس سے ایف بی آر کو اگلے ایک سال میں180 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا اس وقت ملک کی اقتصادی صورتحال اور قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد کے نتیجے میں وطن عزیز کا عام شہری گرانی کے باعث سخت مشکلات کا سامناکررہا ہے کمرتوڑ مہنگائی کیساتھ بھاری یوٹیلٹی بل پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہیںایسے میں اگر مزید ٹیکس بھی عائد ہوتے ہیں تو ان کا لوڈ براہ راست یا بالواسطہ اسی شہر ی پر ڈالا جائیگا‘ دوسری جانب اسی شہری کو بنیادی سہولیات اور خدمات معیار کے مطابق مہیا نہیںہو پاتیں آنے والے بجٹ کے اعدادوشمار کچھ بھی ہوں اقتصادی اشاریوں میں جتنی بہتری آئے اگر برسرزمین عام آدمی کو ریلیف نہ ملے بلکہ الٹا اسے مزید ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانا پڑ جائے تو اس سے اسکی مشکلات کا گراف بڑھ جائیگا اس وقت ضرورت اس شہری کے ریلیف کیلئے اقدامات کی ہے ان اقدامات میں یقینی یہ بھی بنانا ہوگا کہ کسی بھی سیکٹر میں حکومت کی جانب سے کوئی مراعات اور سہولیات دی جائیں تو انکے فوائد اس عام شہری تک پہنچ ضرور جائیں اور بات صرف اعلانات تک محدودنہ رہے‘ سردست فوری اقدامات کے زمرے میں ضرورت ہے کہ عوام کو کم از کم مصنوعی گرانی‘ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ سے چھٹکارہ دلایا جائے‘اس مقصد کیلئے مارکیٹ کنٹرول کاموثر نظام ضروری ہے پنجاب میں وزیر اعلیٰ نے گزشتہ روز پرائس کمیٹیوں کی کارکردگی موثر بنانے کا کہا ہے اس ضمن میں اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی پرائس کمیٹیوں کو فعال بنانے کیساتھ مارکیٹ کنٹرول اور معیار کی پڑتال کے ذمہ دار دفاتر مشترکہ حکمت عملی کیساتھ کام کریں تو عوام کیلئے کچھ ریلیف ممکن بنایا جاسکتا ہے۔