مہنگائی‘بھاری یوٹیلٹی بلوں اور شدید گرمی میں لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں پریشان شہریوں کیلئے بجلی کے بلوں کی مد میں 46ارب61 کروڑ روپے کا نیا بوجھ مرے ہوئے کو مارنے کے مترادف ہے‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے بجلی کے بلوں میں اضافے سے متعلق درخواست پر اپنا محفوظ فیصلہ سنادیا ہے‘ فیصلے کے تحت بجلی مزید3روپے76 پیسے فی یونٹ مہنگی ہوگئی ہے اس سے ایک روز قبل حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں سے متعلق فیصلے پر عجیب صورتحال سامنے آئی جس میں وزیراعظم آفس کی جانب سے پٹرول15 روپے40پیسے سستا کرنے کا اعلان ہوا جبکہ خزانہ نے قیمتوں میں صرف4روپے74 پیسے کمی کا اعلامیہ جاری کیا‘اس طرح ریلیف کی ایک امید دم توڑ گئی‘ دوسری جانب اگلے مالی سال کیلئے قومی بجٹ کی تیاری کا کام زور و شور سے جاری ہے تاہم اس بار پھر اس میزانیے کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا ہے‘قرضے کے حصول کیلئے جاری رابطوں میں عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پر مشتمل فہرست طویل ہوتی چلی جارہی ہے‘اس فہرست کی روشنی میں اٹھائے جانے والے اقدامات کا سارا بوجھ براہ راست یا پھر بالواسطہ عوام ہی کو برداشت کرنا کرناپڑے گا‘ تادم تحریر قومی بجٹ سے متعلق دیئے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق1500 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جانے کیساتھ ارکان پارلیمنٹ کے ترقیاتی فنڈز ختم کرنے کا فیصلہ بھی کیا جارہا ہے تعلیم کیلئے مختص ہونے والی رقم83ارب سے کم کرکے32 ارب کی جارہی ہے اسی طرح دیگر سیکٹرز میں بھی کٹ لگایا جارہا ہے اس ساری صورتحال میں ملک کاعام شہری مہنگائی کے حوالے سے خدشات کا شکار ہے ملک کی معیشت کو درپیش چیلنجوں میں ساری توانائیاں قرضوں کے حصول اور قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد کیلئے میکنزم کی تیاری پر ہی صرف ہوتی چلی آرہی ہیں‘مسئلے کا پائیدار حل معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا ہے اور یہ کوئی ایسا ٹاسک نہیں کہ دوچار اجلاسوں اور ملٹی میڈیا پر دی جانے والی بریفنگ کی روشنی میں چند اعلانات سے پورا ہو جائے‘اس کیلئے ضرورت ایک ہمہ جہت حکمت عملی کی ہے‘ایک ایسی منصوبہ بندی کی ضرورت کا احساس کرنا ہوگا کہ جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی رائے شامل ہو اس کو اس انداز میں محفوظ بنانا ہوگا کہ یہ حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہونے پائے‘ اس کیلئے مشاورت کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا‘ اس سب کیساتھ عوام کو ریلیف کی فراہمی کیلئے مرکز اور صوبوں کو حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی اس سب کیلئے ماضی قریب میں وقفے وقفے سے میثاق معیشت کی آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں تاہم اس کو عملی صورت دینے کی نوبت ابھی تک نہیں آئی کیا ہی بہتر ہو کہ مزید خرابیوں کا انتظار کرنے سے پہلے اس میثاق کی جانب بڑھا جائے۔