وطن عزیز میں عرصے سے جاری سیاسی کشمکش میں وقفے وقفے سے کہیں بات چیت کے ذریعے معاملات سلجھانے کی صدائیں سنائی ضرور دیتی ہیں تاہم عملی نتائج کا ہنوز انتظار ہی چل رہا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں اختلاف رائے کوئی نئی بات نہیں بلکہ اختلاف رائے کا نہ ہونا عجیب بات سمجھی جاتی ہے۔ اس جمہوری نظام میں ایک دور کی حزب اختلاف دوسرے دور میں برسر اقتدار ہوتی ہے تو ٹریژی بنچوں کے لوگ اپوزیشن میں بیٹھے نظر آتے ہیں اختلاف رائے پارلیمنٹ کے اندر بھی دکھائی دیتا ہے جبکہ ایوان کے باہر بھی ہر جماعت اپنے مؤقف کی وضاحت کے لئے عوام کے پاس بھی جاتی ہے اس سب کے ساتھ ساتھ اہم قومی معاملات پر بات چیت کا ڈول بھی ڈالا جاتا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتیں اکثر کسی ایک پوائنٹ پر الائنس بھی بناتی ہیں اور کبھی ہر اتحاد انتخابات کے لئے مشترکہ پلیٹ فارم کی شکل بھی اختیار کرتا ہیگول میز کانفرنس کی روایت بھی ہماری سیاست میں رہی ہے۔ سیاسی قیادت کو یکجا کرنے اور کسی بھی معاملے پر مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کے لئے بات چیت کی راہ ہموار کرنے میں سینئر قیادت کا کردار اہم رہا ہے اس وقت وطن عزیز کو معیشت سمیت مختلف شعبوں میں سخت چیلنجوں کا سامنا ہے ان چیلنجوں کے باعث امور حکومت چلانے میں مشکلات اپنی جگہ پورے منظر نامے میں غریب شہری بری طرح متاثر چلا آرہا ہے ملک کی معیشت کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہوئی ہے قرضہ دینے والوں کو شرائط پر عمل درآمد کے نتیجے میں عوام کو کمر توڑ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے توانائی بحران اپنی جگہ ہے جبکہ اس کے حل کیلئے آبی ذخار کی تعمیر سمیت دیگر مصنوبے سیاسی اتفاق رائے کے متقاضی ہیں اس سارے منظر نامے میں میثاق معیشت کی آوازیں بھی آتی رہی ہیں جبکہ میثاق جمہوریت کی فائل کھولنے کا بھی کہا جاتا ہے کیا ہی بہتر ہو کہ قومی قیادت کم ازکم اہم امور پر مل بیٹھ کر بات چیت یقینی بنائے اس کے سینئر رہنماؤں کا کردار اہمیت کا حامل ہے جس کا احساس ناگزیر ہے۔
کھیلوں کے میدان اور تفریح گاہیں
حکومت نے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں جدید فلڈ لائٹس لگانے کا فیصلہ کیا ہے منصوبے پر 70کروڑ روپے خرچ ہوں گے سٹیڈیم کی تزئین وآرائش کا بجٹ 2ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں کھیلوں کے لئیس ہولیات ضرورت کے مقابلے میں ناکافی ہیں جبکہ موجودہ گراؤنڈز کی حالت بھی قابل توجہ ہے دوسری جانب پشاور میں تفریح گاہوں کی حالت بھی اصلاح احوال کے لئے مؤثر اقدامات کی متقاضی ہے اس ضمن میں پہلے مرحلے پر ضروری ہے کہ متعلقہ حکام خود دفاتر سے نکل کر آن سپاٹ صورتحال دیکھیں اور اس کے تناظر میں حکمت عملی وضع کی جائے مدنظر رکھنا ہوگا کہ نئے منصوبوں سے زیادہ ضروری ہے کہ پہلے سے موجود سہولیات میں بہتری لائی جائے۔