وزیراعظم شہبازشریف انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کیساتھ قرض پروگرام کو آخری قرار دیتے ہیں تاہم اس کیلئے وہ شرط مالیاتی حکمت عملی پر عملدرآمد اور اہداف کے حصول کی عائد کرتے ہیں‘ ہفتہ کے روز قوم سے خطاب میں شہبازشریف اپنی معاشی پالیسیوں میں بھاری خسارے کا باعث بننے والے اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرکے معاشی حالت بہتر بنانے کا کہتے ہیں‘ وزیراعظم کہتے ہیں کہ عوام کے پیسے پر عیاشی نہیں ہوگی اور یہ کہ ایک ایک دھیلا ملک کی ترقی پر لگایا جائیگا وزیراعظم اقتصادی صورتحال کے تناظر میں بچت کے طور پر سادگی کو اوڑھنا بچھونا بنانے کا بھی کہتے ہیں جہاں تک وزیراعظم کے عزم کا تعلق ہے تو اسے ہر پاکستانی کی خواہش کا عکاس قرار دیا جا سکتا ہے اسکے ساتھ حکومتی اعلانات اور اقدامات کے عملی نتائج کے درمیان فاصلوں کے تناظر میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اب کی بار برسرزمین نتائج یقینی بنانے کیلئے کس طرح حکمت عملی ترتیب دی جارہی ہے وطن عزیز کی اکانومی ایک طویل عرصے سے مشکلات کے گرداب میں ہے معیشت کو اس حال تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے اس سوال پر گرما گرم بیان بازی کا طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں ہر کوئی ایک دوسرے کو ذمہ دار گردانتا ہے اس میں بگاڑ میں بات صرف اقتصادی اشاریوں اور بیرونی قرضوں تک محدود نہیں وزیراعظم اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والے اداروں کو نجی شعبے پر فروخت کرنے کا بھی کہہ رہے ہیں یہ ادارے اس حالت پر کس طرح پہنچے دیکھنے کی ضرورت یہ بھی ہے کہ ان میں متعدد ادارے ایسے بھی ہیں کہ وہ ماضی قریب میں منافع بخش تھے وہ کون سے عوامل تھے کہ جنہوں نے ان اداروں کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ ان کے پاس ملازمین کیلئے تنخواہیں بھی نہ رہیں‘ اصلاح احوال کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ اس وقت عوام کوخدمات فراہم کرنے کیلئے قائم اداروں کو بھاری بجٹ دیئے جاتے ہیں جبکہ ان اداروں کی جانب سے سروسز کا معیار سوالیہ نشان ہی رہتا ہے جواب طلب سوال یہ بھی ہے کہ اربوں روپے کے فنڈ جاری ہونے کے باوجود عام شہری سرکاری علاج گاہوں میں سہولیات نہ ملنے پر کیوں نجی اداروں کی جانب رجوع پر مجبور ہوتا ہے‘ والدین سارے اخراجات پر کٹ لگا کر کیوں بچوں کی فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہیں‘ بھاری بل دینے والے صارفین کیوں لوڈشیڈنگ کی اذیت برداشت کرتے ہیں‘ اصلاح احوال میں قرضوں سے چھٹکارے کے ساتھ اصلاحات کے ایک بڑے عمل کی ضرورت ہے کہ جس میں اداروں کی کارکردگی بہتر ہونے کے ساتھ عوام کو ریلیف ملے۔