گرمی کی شدت کیساتھ سیاسی درجہ حرارت بھی کافی بڑھتا دکھائی دے رہاہے‘ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں اس گرما گرمی کا عکس بھی دیکھا گیا ہے‘ ایوان کے باہر بھی سیاسی بیانات کی حدت اور شدت بڑھتی دکھائی دے رہی ہے‘ اس سب کیساتھ سیاسی رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان مذاکرات میں پی پی پی کے مطالبات منظور کرلئے گئے ہیں دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علماءاسلام(ف) کے درمیان رابطہ ہوا ہے خبررساں ایجنسی کے مطابق دونوں جماعتوں نے سیاسی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اس کیساتھ دونوں پارٹیاں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کا بھرپور کردار ادا کرنے پر بھی متفق ہوئی ہیں‘ وطن عزیز کی سیاست ایک عرصے سے تناﺅ اور کشمکش کا شکار چلی آرہی ہے یہ تناﺅ ایوان کے اندر بھی دکھائی دیتا ہے اور پارلیمنٹ کے باہر بھی اسکے اثرات موجود رہتے ہیں سیاسی بیانات اور تقاریر میں انتہائی تلخ لہجوں میں بات کی جاتی ہے اور یوں الفاظ کی گولہ باری کاسلسلہ جاری رہتا ہے‘ اس سارے منظرنامے میں قابل توجہ ہے کہ ملک کو معیشت سمیت متعدد شعبوں میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے‘ اکانومی کے سیکٹر میں مشکلات کے اثرات غریب عوام پر گرانی کی صورت اذیت ناک شکل اختیار کئے ہوئے ہیں‘حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف رائے کوئی غیر معمولی بات نہیں‘ یہ پارلیمانی جمہوری نظام کا ایک اہم حصہ ہے‘ اس اختلاف کو حد اعتدال میں رکھنا اور اہم قومی امور کو باہمی گفت و شنید سے نمٹانا بھی ناگزیر رہتاہے ‘سیاسی منظرنامے میں رابطے اور ملاقاتیں بالآخر کوئی راستہ تلاش کرنے میں معاون ہی ثابت ہوتی ہیں ‘جن کی کامیابی ایک دوسرے کاموقف سننے سے جڑی ہوتی ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ درپیش حالات میں سیاسی رابطوں اور ملاقاتوں کے سلسلے کو مزید توسیع دی جائے۔
کڑی نگرانی کا انتظام؟
خیبرپختونخوا میں صحت کاشعبہ اصلاحات کے حوالے سے سرفہرست دکھائی دیتا ہے اصلاحات کے اس عمل میںاس سیکٹر کے اندر انتظامی حوالے سے تجربات کا سلسلہ بھی عرصہ دراز سے جاری ہے ‘ان اصلاحات میں صحت کارڈ جیسا بڑا منصوبہ بھی آیا ہے کہ جس سے عام شہری کیلئے پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کے مواقع بھی موجود ہیں‘ اس سب کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد سروسز کے معیار سے مطمئن نہیں‘ سرکاری علاج گاہوں میں مسائل کے مقابلے میں وسائل کی کمی بھی ایک حقیقت ضرور ہے اسکے ساتھ صرف نظراس برسرزمین تلخ حقیقت سے ممکن نہیں کہ معمولی گنجائش رکھنے والا مریض بھی پرائیویٹ اداروں میں علاج کو ترجیح دیتا ہے ہسپتالوں سے جاری اعدادوشمار اپنی جگہ قابل اطمینان ضرور ہیں ‘ضرورت مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کے خدمات سے متعلق اطمینان کی بھی ہے جس کیلئے اداراتی مانیٹرنگ کیلئے جو کنٹرول روم کا منصوبہ ہے اسے جلد مکمل کیا جائے۔