ملک کی سیاست میں شدید تناؤ اور کشمکش اپنی جگہ ہے‘ قومی اہمیت کے حامل اہم امور پر حکومت اور اپوزیشن کے موقف اپنی جگہ ہیں‘ سیاسی بیانات کی گرما گرمی اپنے مقام پر جاری ہے‘ اس سب کیساتھ مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار حکومتوں کی جانب سے بڑے بڑے خوش کن اعلانات کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ اس سب کیساتھ قابل توجہ ہے کہ چند روز بعد نئے مالی سال کا آغاز ہونے جا رہاہے‘ یکم جولائی کو نئے ٹیکس عائد ہونے اور بعض کی شرح میں ردوبدل کیساتھ گرانی کے طوفان میں کس طرح شدت آنے والی ہے‘ وقت کیساتھ ساتھ بجلی کے بلوں کا حجم بڑھنے سے عوام کا بوجھ کس طرح زیادہ ہوتا جائیگا‘ قرضوں کے حصول پر عائد ہونے والی شرائط کس طرح سے مجبوری کے عالم میں تسلیم ہوتی رہیں گی اور کس طرح ان کا لوڈ عام شہری کی اذیت میں اضافہ کرتا رہے گا‘ قرضوں کے حصول کیلئے عائد شرائط کا سارا بوجھ سنبھالنے والے ملک کے اس شہری کو بنیادی سہولیات کے فقدان کا سامنا بھی کرنا پڑ رہاہے‘ دیگر سہولیات تو ایک طرف آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں‘ بڑے بڑے اعلانات اور منصوبوں کے باوجود ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد علاج کیلئے نجی اداروں میں جانے پر مجبور ہے‘جہاں کے چارجز بھی ہر قاعدے قانون سے آزاد ہیں‘ میونسپل سروسز اور تعلیم کے حوالے سے بھی عام شہری مشکلات ہی کا سامنا کرنے پر مجبور رہتا ہے اہم قومی امور کو یکسو کرنا یقینا اہم ذمہ داری ہے‘ سیاسی درجہ حرارت کو اعتدال میں رکھنا اور اہم معاملات پر بات چیت یقینی بنانا بھی اہم ہے اقتصادی شعبے میں اصلاح احوال کیلئے بڑے بڑے منصوبے بھی اہمیت کے حامل ہیں توانائی بحران سے نکلنے کیلئے بڑے بڑے پراجیکٹس کی اہمیت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں اس سب کیساتھ ضرورت مرکز اور صوبوں کی سطح پر عوام کو درپیش عام مسائل کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کی ہے‘ مارکیٹ میں موجود گرانی کے ساتھ اس وقت مصنوعی مہنگائی‘ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی نے صورتحال کو تشویشناک بنا رکھا ہے‘ صرف منڈی کنٹرول کیلئے موثر انتظام کرکے عام شہری کو مہنگائی میں ریلیف دیا جا سکتا ہے‘مارکیٹ کنٹرول کا یہ نظام صرف چند چھاپوں تک محدود نہیں رہنا چاہئے اس کیلئے گراس روٹ لیول تک رسائی کا حامل سسٹم دینا ہوگا‘ خدمات کے اداروں میں سروسز کا نظام بہتر بنا کر لوگوں کیلئے سہولت ممکن بنائی جا سکتی ہے اسی طرح بجلی اور گیس کی فراہمی میں لائن لاسز‘ ضیاع اور چوری پر قابو پاکربہتر مینجمنٹ کیساتھ لوگوں کو سہولت دی جا سکتی ہے‘ اس سب کیلئے مرکز اور صوبوں کے ذمہ دار دفاتر کو مل بیٹھ کر حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔