مجبوری کب تک؟

وزیراعظم شہباز شریف نے کھلے دل کے ساتھ دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ حکومت کو بجٹ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ والوں کے ساتھ مل کر بنانا پڑا اور یہ کہ یہ سب ملک کے حالات کا تقاضا تھا‘ قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن سے خطاب میں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حکومتی اخراجات میں کمی کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں‘ اخراجات میں کمی کے لئے اقدامات میں وزارتوں میں ڈاؤن اور رائٹ سائزنگ دکھائی دیتی ہے اس مقصد کے لئے حکومت کمیٹی بھی بنا چکی ہے‘ حکومت کی جانب سے کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ اخراجات میں کمی کے لئے باقاعدہ پلان بنایا جا رہا ہے اور یہ کہ اس کے خدوخال اگلے ڈیڑھ ماہ میں سامنے آئیں گے۔ وطن عزیز کو اقتصادی شعبے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہیں‘ ان مشکلات سے نمٹنے کے لئے قرضوں کا حجم روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ متعلقہ دفاتر کی ساری کوششیں قرضوں کے حصول اور قرض دینے والوں کی شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے ہوتی ہیں‘ قرضوں کے تشویشناک حجم کے باوجود نیا قرضہ ملنے کو خوشخبری قرار دیا جاتا ہے یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے اس دوران متعدد مرتبہ حکومتیں تبدیل بھی ہوئیں تاہم قرضوں کے حصول پر فل سٹاپ نہ لگ سکا۔ حکومت کی جانب سے اب بار بار اکانومی کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے اور قرضوں پر سے انحصار ختم کرنے کا عندیہ بھی آ رہا ہے‘ یہ سب اپنی جگہ اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ معیشت کی بحالی اور عوام کو ریلیف دینا کوئی آسان ہدف نہیں اس کے لئے پوری توجہ اور باہمی مشاورت سے حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی جس میں قومی قیادت یکجا ہو‘ اس ضمن میں ماضی قریب میں میثاق معیشت کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں بات چیت کے دوران قومی اسمبلی میں چیف وہپ اور تحریک انصاف کے رہنما عامر ڈوگر کا کہنا تھا کہ وہ خود میثاق معیشت کی تائید کرتے ہیں اور یہ کہ حکومت اس کے لئے آگے بڑھے۔ وطن عزیز کو درپیش معاشی مشکلات کا تقاضا اب اس گرداب سے نکلنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی کا ہے جس کا احساس ضروری ہے اس سب کے ساتھ مدنظر رکھنا ہو گا کہ اس وقت ملک کا غریب شہری پورے منظر نامے میں شدید مشکلات کا شکار ہے‘ منتخب قیادت چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو اس شہری کی نمائندہ ہے‘ اس وقت عوام کو اذیت ناک صورتحال سے نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے کو مستحکم بنانے کے لئے مل بیٹھ کر راستہ تلاش کیا جائے۔