قومی بجٹ کی منظوری

  قومی اسمبلی میں جمعہ کے روز مالی سال2024-25ء کیلئے قومی بجٹ کی منظوری دے دی گئی ہے اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ کی منظوری سے پہلے وفاقی وزیر خزانہ نے فنانس بل میں ترمیم پیش کی بجٹ کے پیچیدہ اعدادوشمار اسکے حق اور مخالفت میں پیش ہونے والے دلائل سے متعلق بحث میں پڑے بغیر ضرورت برسرزمین حالات کی روشنی میں اقتصادی شعبے کیلئے ترجیحات کے تعین کی ہے‘ وزیر اعظم شہبازشریف گزشتہ دنوں اسمبلی اجلاس سے خطاب میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ قومی بجٹ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کیساتھ مل کر بنانا پڑا‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا سب مجبوری کے باعث کرنا پڑا‘ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وطن عزیز کی معیشت کو اب کسی بھی ڈکٹیشن کی پابندی سے چھڑایا جائے اگر اس طرح قرضوں کے حصول اور قرض دینے والوں کی شرائط پر چلا یاجائیگا تو مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا‘ دریں اثناء ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں بجلی اور پٹرولیم مصنوعات مزید مہنگے ہونے کے خدشات بھی دکھائی دے رہے ہیں‘اس وقت ملک کی سیاست میں گرما گرمی ہے‘مرکز اور صوبوں میں بننے والی حکومتیں اپنی حکمت عملیاں وضع کر رہی ہیں‘ اصلاع احوال کیلئے اقدامات میں بڑے بڑے اعلانات اور اقتصادی صورتحال سے متعلق بڑے بڑے اعدادوشمار سب اپنی جگہ قابل اطمینان سہی ملک کا عام شہری اس وقت ریلیف کا منتظر ہے نئے مالی سال میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور ٹیکس شرح میں ردوبدل کا بوجھ اسی عام شہری نے اٹھانا ہے‘ حکومت سیلز ٹیکس ادویات پر لگائے یا سٹیشنری سمیت کسی بھی آئٹم پر‘ یہ ٹیکس بھرنا عوام نے ہے کسی بھی صنعت پر کوئی ٹیکس لگے یا مصنوعات کی تیاری کے اخراجات میں کوئی بھی اضافہ ہو تو اس کا لوڈ عوام ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے اس لئے ٹیکس کو جس سیکٹر کانام دیا جائے وہ عائد ہونا عوام ہی پر ہے‘ درپیش صورتحال اور اس کے نتیجے میں عوام کی مشکلات متقاضی ہیں کہ ملک کو اقتصادی سیکٹر کے اس بحران سے نکالنے کے لئے موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے جس پر عمل درآمد ہر مرحلے پر چیک ہوتا رہے۔
پیدل چلنے والوں کے مسائل
درجنوں اعلانات اور اقدامات کے باوجود صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کامسئلہ اپنی جگہ ہے‘ اس مسئلے میں پیدل چلنے والوں تک کو شدید دشواریوں کا سامنا ہے‘ منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے ذمہ دار دفاتر کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ ٹریفک صرف ٹریفک پولیس کامسئلہ نہیں اس میں متعدد سٹیک ہولڈرز ہیں‘جب تک اعلیٰ سطح پر تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرکے کوئی ہمہ جہت حکمت عملی ترتیب نہیں دی جاتی‘ اس وقت تک پائیدار حل کی جانب نہیں بڑھا جاسکتا‘دارالحکومت کی حد تک تو کمشنر پشاور اگر اس ضمن میں سارے متعلقہ اداروں کوایک پلیٹ فارم پراکٹھا کر لیں تو یقینا سب کے لئے رول ماڈل ہوگا۔