اعدادوشمار اور عوامی مشکلات

بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ ایک درجہ بہتر کردی ہے‘ موڈیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اکانومی کا منظرنامہ مثبت ہے جس کے  باعث ریٹنگ بڑھائی گئی ہے‘ دوسری جانب پاکستان کی ڈیفالٹ رسک میں کمی بھی ریکارڈ ہوئی ہے‘ دریں اثناء اقتصادی حوالے سے ریٹنگ کی اچھی خبر آنے کے ساتھ یہ رپورٹ بھی آگئی ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ایگزیکٹیو بورڈ اجلاس کیلئے جاری ہونے والے نئے شیڈول میں بھی پاکستان کا نام شامل ہی نہیں ہے‘ ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس کا شیڈول6ستمبر تک کیلئے جاری ہوگیا ہے آئی ایم ایف بورڈ اجلاس کے ایجنڈے میں ویت نام‘ یوگنڈا اور ڈنمارک سمیت7 ممالک کے کیس شامل ہیں‘ پاکستان نے آئی ایم ایف سے7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کر رکھی ہے‘ وزارت خزانہ کے ذرائع کا اس حوالے سے بتانا ہے کہ حکومت2 ارب ڈالر کی اضافی ایکسٹرنل فنانسنگ کی شرط جلد پوری کرنے کیلئے پرامید ہے‘ وطن عزیز کو اقتصادی شعبے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ملک کھربوں روپے کا مقروض ہو چکا ہے کوئی قرضہ معمولی تاخیر کا شکار بھی ہو جائے تو فنانشل منیجرز مشکلات میں پڑ جاتے ہیں‘ دوسری جانب اس ساری صورتحال میں قرضہ دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد مجبوری کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے‘ اس مجبوری کا سارالوڈ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے ہر نیا ٹیکس عوام ہی کو ادا کرنا پڑتا ہے‘مارکیٹ میں گرانی عام شہری کی کمر ہی توڑتی ہے‘بھاری یوٹیلٹی بل غریب ہی کے گھر کا بجٹ متاثر کرتے ہیں‘قابل اطمینان ہے کہ اس مشکل صورتحال میں موڈیزجیسے عالمی ادارے نے پاکستان کی ریٹنگ میں بہتری دکھائی ہے حکومت کے ذمہ دار دفاتر بھی اکثر اقتصادی اشاریوں میں بہتری کا مژدہ سناتے ہیں‘کبھی زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام کی نوید دی جاتی ہے کبھی حصص کی مارکیٹ میں کاروبار بہتر ہونے کی خبر جاری ہوتی ہے‘یہ سب یقینا قابل اطمینان ہے تاہم اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ اعدادوشمار میں موجود کوئی خوشخبری ملک میں عام شہری کے لئے اس وقت تک سہولت کا ذریعہ نہیں بن سکتی جب تک اس کو عملی طور خود ریلیف کا احساس نہ ہو‘ اس وقت درپیش صورتحال سے نمٹنے کے لئے جس قدر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ان میں ضرورت پورے منظرنامے سے متاثر عام شہری کو ریلیف دینے کی ہے۔