وفاقی کابینہ کے فیصلے

وفاقی کابینہ نے منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں متعدد اہم فیصلوں کی منظوری دی‘ اجلاس کی کاروائی سے متعلق ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کابینہ نے آپریشن عزم استحکام کیلئے 20 ارب روپے منظور کئے ہیں‘ کابینہ نے ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کرنے 28 ادارے بند کرنے جبکہ 82 کو ضم و تحلیل کرنے کی منظوری بھی دی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں عارضی بھرتیوں پر پابندی عائد کرنے جبکہ نان کور اسامیاں آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے‘ کابینہ نے ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری بھی دی‘ اجلاس کے فیصلوں میں قابل اطمینان ہے کہ اداروں کے ضم اور تحلیل ہونے کی صورت میں متاثر ہونے والے ملازمین کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے‘ جہاں تک سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور غیر ضروری اخراجات پر کٹ لگانے کا تعلق ہے تو درپیش منظرنامے میں اس کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں تاہم اس سارے عمل میں ملازمین کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ضروری ہے‘ اس سب کے ساتھ سرکاری مشینری کے پورے آپریشن میں تکنیکی حوالوں سے یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں ماضی قریب کے منافع بخش ادارے آج اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے قابل بھی نہیں رہے اور حکومت کی جانب سے برائے فروخت پیش ہونے لگے ہیں‘ ضرورت اس سقم کو تلاش کرنے کے ساتھ اس بات کی بھی ہے کہ اس ضمن میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی بجائے اب اصلاح احوال کی جانب بڑھا جائے‘ یہ بات یقینی بنانا ضروری ہے کہ ملک کو مختلف شعبوں خصوصاً اکانومی کے سیکٹر میں درپیش مشکلات کے تناظر میں آئندہ کیلئے سرکاری اداروں کی توسیع زمینی حقائق مدنظر رکھ کر کی جائے۔ وفاقی کابینہ کے فیصلوں میں چینی کی ایکسپورٹ کی منظوری بھی شامل ہے‘ مہیا اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کی جائے گی‘ اس فیصلے کے اثرات میں وطن عزیز کے اندر مقامی منڈی میں چینی کی رسد اور قیمت متاثر نہ ہونے پائے‘ اس وقت ملک اقتصادی شعبے میں مشکلات کا شکار ہے‘ مشکلات کے اثرات عام شہری پر کمر توڑ مہنگائی کی صورت اذیت ناک ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ ایسے میں ریفارمز کی ضرورت سے صرف نظر ممکن نہیں تاہم اس میں ارضی حقائق کی روشنی میں وسیع مشاورت‘ معاملات کا تکنیکی جائزہ ناگزیر ہے‘ اس سب کے ساتھ ملازمین کے مفادات کا تحفظ اور عوام کا ریلیف بھی پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے اس سب کیلئے سٹیک ہولڈرز کے درمیان باہمی رابطے بھی ضروری ہیں۔