وطن عزیز میں بجلی کی چوری روکنے کیلئے بڑے اقدام کے طور پر سپورٹ یونٹس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے اس حوالے سے سمری ارسال کردی گئی ہے جس کی کابینہ کمیٹی سے منظوری آج متوقع ہے‘ ڈسکوز سپورٹ یونٹ براہ راست سیکرٹری توانائی کو رپورٹ دے گا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں توانائی بحران تشویشناک صورت اختیار کئے ہوئے ہے بجلی کی رسد ڈیمانڈ کے مقابلے میں کم ہے چوری اور ضیاع اپنی جگہ ہے اس ساری صورتحال میں بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے والے صارفین بری طرح متاثر چلے آرہے ہیں‘ ان صارفین کا ردعمل جگہ جگہ احتجاج کی صورت نظر آرہاہے دوسری جانب ان ہی شہریوں کو نئے مالی سال میں 1700 ارب روپے کے نئے ٹیکس بھی ادا کرنے ہیں ان شہریوں کو سیلز ٹیکس بڑھنے پر شدید مہنگائی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہاہے انہیں مارکیٹ میں مصنوعی مہنگائی کا لوڈ برداشت کرنے کیساتھ ملاوٹ کے ہاتھوں بھی مشکلات کا سامنا ہے اسے بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ موسموں کی شدت میں برداشت کرنا پڑتی ہے جبکہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں بجلی کے کیس میں ایک ایسے صارف کو بھی اضافی لوڈشیڈنگ کا سامنا رہتا ہے کہ جو اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر بھاری بل ادا کرتا ہے‘ اسے بجلی کی اضافی وقتکے لئے بندش محض اس لئے برداشت کرنا ہوتی ہے کہ اس کے علاقے میں دیگر صارفین اپنا بل جمع نہیں کراتے بجلی کے صارفین کو مشکلات ترسیل کے نظام میں خرابیوں کے باعث بھی اٹھانا پڑتی ہیں معمولی آندھی یا بارش کی صورت میں ان ہی صارفین کیلئے گھنٹوں بجلی کی سپلائی معطل رہتی ہے‘وولٹیج میں کمی بیشی کے نتیجے میں قیمتی الیکٹرانکس کی اشیاء خراب ہو جاتی ہیں‘ ایسے میں اصلاح احوال کے لئے بجلی چوری روکنے کی غرض سے اقدامات کیساتھ اس سیکٹر میں صارفین کی دیگر مشکلات کا احساس بھی ضروری ہے۔
توجہ کے مستحق بچے
صوبائی وزیر صحت سید قاسم علی شاہ امراض خون میں مبتلا بچوں کے علاج اور انہیں خون کی فراہمی کے حوالے سے متعدد اقدامات کا عندیہ دے رہے ہیں جو کہ قابل اطمینان ہے تاہم برسرزمین عملی نتائج کیلئے سنجیدہ کوششوں میں مزید تاخیر مسائل کی شدت بڑھا سکتی ہے‘ امراض خون میں مبتلا معصوم بچے خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں اور سرکاری سطح پر بڑے اداروں کے ساتھ پرائمری ہیلتھ کیئر مراکز تک ان کیلئے مرض کی تشخیص اور علاج کا انتظام ضروری ہے‘ ان کو صرف خون کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ محفوظ خون ان کیلئے ناگزیرہوتاہے جس کیلئے عالمی سطح پر پیمانے مقرر ہیں کیا ہی بہتر ہو کہ نئے مالی سال کے آغاز پر ہی ان مریض بچوں کے علاج سے متعلق جامع پیکیج کا اعلان کر دیا جائے۔