خیبرپختونخوا حکومت نے جنوبی اضلاع کے بعد ہزارہ ڈویژن کیلئے الگ سیکرٹریٹ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘ اس ضمن میں جاری تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی صدارت میں اجلاس گزشتہ روز اسلام کے خیبرپختونخوا ہاؤس میں ہوا‘ اجلاس میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمر ایوب اور سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی سمیت ہزارہ کے حکومتی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے شرکت کی‘ ہزارہ سیکرٹریٹ 8 اضلاع کیلئے ہوگا اس سیکرٹریٹ کے قیام کا اعلان وزیر اعلیٰ آج مانسہرہ میں ہونے والے جلسے میں کرینگے اس سے قبل صوبے کی حکومت جنوبی اضلاع کیلئے علیحدہ سیکرٹریٹ کے قیام کا اعلان بھی کرچکی ہے‘ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا وژن اختیارات کی عوام کو منتقلی اور انتظامی امور کے بے ترتیب پھیلے دائرے کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے عوام کی رسائی یقینی بنانے کا ہے اس وژن کو عملی شکل دیتے ہوئے جنوبی اضلاع سے ابتداء کی گئی اور اب ہزارہ سیکرٹریٹ کا عندیہ بھی دے دیا گیا ہے بلاشبہ گڈ گورننس اور انتظامی امور کو بہتر بنانے کیلئے انتظامیہ کے دفاتر کو قابل رسائی بنانا ضروری ہوتا ہے کسی بھی ڈویژن کی سطح پر اہم فیصلے اور ان پر عملدرآمد کا کام اگر مقامی سطح پر ہو جاتا ہے تو اس سہولت کا احساس ان شہریوں کو ہی بہتر انداز میں ہو سکتا ہے جو ایک درخواست کو لے کر طویل سفر کرتے ہوئے صوبائی دارالحکومت تک پہنچتے ہیں اور تاخیر کی صورت میں انہیں یہاں قیام بھی کرنا پڑتا ہے خود انتظامی دفاتر میں بھی پورے صوبے کے امور ایک وقت میں نمٹانے کا کام دشوار ہوتا ہے جبکہ تاخیر کی صورت میں لوگ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں صوبوں میں ڈویژنل‘ ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح پر امور نمٹانے کا انتظام اسی سوچ کے ساتھ ہوتا رہا ہے ماضی قریب میں ڈویژنل سطح پر کمشنرز کے دفاتر ختم کرنے کا تجربہ ہوا بعد میں پھر سے پرانے سیٹ اپ پر آیا گیا صوبے کی سطح پر وفاق کے زیر انتظام رہنے والے علاقوں کے امور کو بہتر اور آسان بنانے کیلئے فاٹا سیکرٹریٹ کاقیام عمل میں لایا گیا‘ جہاں تمام ادارے ایک کمپلیکس میں کام کرتے رہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انتظامی امور میں نیا سیٹ اپ بنائے جانے پر بعض سقم سامنے آتے ہیں جو وقت کیساتھ دور ہوتے رہتے ہیں حالیہ فیصلوں میں جنوبی اضلاع کیلئے سیکرٹریٹ کے حوالے سے سفارشات کی تیاری کا کام ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ عابد مجید کو سونپا گیا ہے بلاشبہ انتظامی امور میں ان کی قابلیت اور تجربے کی روشنی میں ہونیوالی سفارشات ثمر آور نتائج کی حامل ہی ہوں گی اور اس کے بعد سارے سیٹ اپ کیلئے رول ماڈل قرار پائیں گی ضرورت اس سارے کام کو تکنیکی بنیادوں پر فول پروف بنانے کی ہے۔