بجلی کا ٹیرف؟

اعداد وشمار پر مشتمل یہ رپورٹ بجلی کے700 سے زائد یونٹ استعمال کرنے والے صارفین پر بجلی بن کر ہی گری ہے کہ وطن عزیز میں فی یونٹ بجلی کی قیمت69 روپے سے بھی بڑھ گئی ہے‘ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اتار چڑھاؤ کے لامتناہی سلسلے میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں آئے روز کا اضافہ اس سب سے علیحدہ ہے‘ مختلف ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کے ساتھ بجلی کی قیمتوں سے متعلق جاری تفصیلات کے مطابق 100 یونٹ تک کا ٹیرف 37 روپے38پیسے جبکہ101 سے200 تک کا45 روپے15پیسے ہوگیا ہے‘200  سے زیادہ 300 یونٹ تک بجلی کی قیمت مجموعی طور پر50روپے17پیسے ہوگی اسی تناسب سے ٹیرف700 یونٹ سے زیادہ بجلی خرچ ہونے پر69.27 روپے فی یونٹ ہوگا‘ کھربوں روپے کے بیرونی قرضوں تلے دبی معیشت میں بجلی اور گیس کے بل قرض دینے والوں کی شرائط پر ترتیب پا رہے ہیں‘ان کا لوڈ غریب صارفین کے گھریلو بجٹ کو بری طرح متاثر کر دیتا ہے‘ بینکوں کے سامنے لگی طویل قطاروں میں لگ کر بل جمع کرانے والے صارفین کو صرف بجلی مہنگی ہونے کی شکایت نہیں ان کیلئے طلب کے مقابلے میں بجلی کی کم رسد پر لوڈشیڈنگ بھی اذیت ناک ہے ان کیلئے وہ اضافی لوڈشیڈنگ بھی مشکلات کا سبب ہے کہ جو وہ اپنے علاقے میں بجلی کا بل جمع نہ کرانے والے صارفین کو دی جانے والی سزا کے طور پر بغیر کسی جرم کے برداشت کرتے ہیں‘ان صارفین کیلئے مشکلات کا سبب ترسیل کے نظام کی وہ خرابیاں بھی ہیں کہ گھنٹوں بجلی کی سپلائی معطل ہونے کا ذریعہ بنتی ہیں‘ ان شہریوں کو مشکل اووربلنگ پر بھی پیش آتی ہے‘ درپیش منظرنامہ متقاضی ہے اس حکمت عملی کا کہ معیشت قرضوں کے چنگل سے آزاد ہو‘تاکہ بل کسی کی ڈکٹیشن پر نہ بنانے پڑیں‘ ضروری ہے کہ بجلی کی پیداواری لاگت کم ہو‘ یہ پن بجلی کی پیداوار بڑھانے پر ممکن ہو سکتا ہے‘ اس کیلئے آبی ذخائر کی ضرورت کا احساس کرنا ہوگا‘ اس سب کیساتھ ناگزیر یہ بھی ہے کہ بجلی کے لائن لاسز کو قابو میں لایا جائے‘ ضروری یہ بھی ہے کہ بجلی کا ضیاع روکا جائے‘ بجلی کی طلب کے مقابلے میں کم رسد کو مدنظر رکھتے ہوئے نمائشی استعمال کے کیس کو بھی دیکھا جائے‘ شمسی توانائی کیلئے غریب شہریوں کو وسائل مہیا کئے جائیں اور اس مقصد کیلئے عملی نتائج کی حامل منصوبہ بندی کی جائے اس سب کیساتھ ضروری یہ بھی ہے کہ بجلی کی ترسیل کے نظام کو محفوظ بنایا جائے تاکہ معمولی آندھی اور بارش کی صورت میں عوام کو گھنٹوں بجلی کی بندش کا سامنا نہ کرنا پڑے ٹیرف میں مسلسل اضافے کیساتھ ضرورت اس  حوالے سے مشکلات کے احساس کی بھی ہے۔