ادائیگی کس نے کرنی ہے؟

عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے نئے قرض پروگرام کیلئے ڈومور کے مطالبات کا سلسلہ جاری ہے مطالبات کے جاری سلسلے میں زراعت پر ہونے والی آمدنی پر ٹیکس بھی شامل ہے‘ اس ضمن میں آئی ایم ایف کے حکام نے صوبوں کیساتھ علیحدہ علیحدہ ورچوئل مذاکرات بھی کئے ہیں‘ دوسری جانب بجلی کے صارفین پر ایک اور بم گرادیاگیا ہے‘ خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق نیپرا نے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7روپے12پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے‘ اس کیساتھ ملک میں زرعی اور کمرشل صارفین کیلئے بھی بجلی مہنگی کردی گئی ہے‘ دریں اثناء نئے مالی سال کے آغاز پر آٹے کے بعد چاول پر بھی ایڈوانس اور ودہولڈنگ ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے‘ یہ ٹیکس ڈسٹری بیوٹرز اور ڈیلرز سے وصول کیا جائیگا‘قرضوں کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کا کوئی مطالبہ ہو یا حکومت کا اپنی جانب سے کوئی ٹیکس عائد ہو‘ اس کی ادائیگی بالآخر عام شہری نے براہ راست یا بالواسطہ کرنا ہوتی ہے‘ تنخواہوں پر عائد ٹیکس خود ملازم ادا کرتا ہے جبکہ دیگر تمام ٹیکس صارف کو منتقل کردیئے جاتے ہیں‘ بجلی مہنگی ہونے پر عام صارف بجلی کے حصول میں تمام تر مشکلات کے باوجود پوری ادائیگی کرے گا‘بجلی مہنگی ہونے پر زرعی و صنعتی پیداوار کی لاگت میں جو اضافہ ہوگا وہ بھی اس عام صارف کو مارکیٹ میں ادا کرنا ہوگا‘ ٹیکس صنعت پر لگے یا زراعت پر‘ ادائیگی کا لوڈ عام شہری کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق صرف بجلی کے کیس میں صارفین کو سالانہ860 ارب روپے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے ان سب حقائق کی روشنی میں ضروری ہے کہ ملک میں عام صارف پر گرائے جانے والے لوڈ کیساتھ اس کو ریلیف بھی دیا جائے یہ ریلیف مارکیٹ کنٹرول کے ذریعے بھی ممکن ہے جس پر مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار حکومتوں کو کوئی اضافی بجٹ مختص نہیں کرنا پڑیگا‘ صرف روایتی دوچار چھاپوں سے ہٹ کر منڈی میں نگرانی کے موثر انتظام سے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے‘مدنظر رکھنا ہوگا کہ ہر طرف مہنگائی کی آوازوں میں مصنوعی گرانی والے بھی فائدہ اٹھانے لگے ہیں جبکہ ملاوٹ بھی انسانی صحت کے لئے خطرہ بنتی چلی جارہی ہے اس کے ساتھ مہنگائی سے پریشان حال شہریوں کو سروسز کے اداروں میں خدمات کی فراہمی کا نظام بہتر بنا کر بھی سہولت پہنچائی جا سکتی ہے‘ اس سب کے لئے ضرورت موثر حکمت عملی کی ہے جو ہر سطح پر مانیٹر بھی ہو‘ درپیش منظرنامہ متقاضی اس بات کا بھی ہے کہ ملک میں اکانومی کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے وسیع مشاورت سے پلاننگ کی جائے تاکہ ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالا جا سکے اور  قرض دینے والوں کی جانب سے مطالبات کی فہرست آنے کا سلسلہ بند ہو۔