انسانی حقوق کے دعوے‘ جنگی قاعدے قانون کی پابندی‘بچوں کے تحفظ کیلئے بڑے بڑے اقدامات کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ممالک اور عالمی ادارے نوٹ نہیں کر رہے کہ غزہ میں اسرائیلی بربریت میں گزشتہ روز کس طرح بے گھر افراد کو نشانہ بنایا گیا‘ تادم تحریر ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق بے گھر فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں صرف24 گھنٹے میں 90سے زائد افراد شہید ہوئے ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں‘ فلسطین کی وزارت صحت کا یہ بیان عالمی ضمیر کیلئے سوالیہ نشان ہے کہ اسرائیلی فوج نے10روز میں اقوام متحدہ کے8پناہ گزین سکولوں کو نشانہ بنایا‘7 اکتوبر2023ء سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت میں 38 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے‘ غزہ کی صورتحال کا اندازہ صرف اس ایک بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس میں خود اقوام متحدہ یہ اعتراف کر رہی ہے کہ اسرائیلی جارحیت سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں لگے ملبے کے ڈھیر صاف کرنے میں 15 سال لگ سکتے ہیں‘ عالمی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے باعث تباہ ہونے والی عمارتوں کے تقریباً 4کروڑ ٹن ملبے کو ہٹانے پر50 کروڑ ڈالر کے اخراجات بھی آئیں گے‘ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے50 ہزار بم گرائے ہیں‘اسرائیلی جارحیت میں انسانی حقوق کے لئے بنائے جانے والے عالمی قاعدے قانون کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں‘ اسرائیل جنگی جرائم کا کھلم کھلا مرتکب ہو رہا ہے‘اس سب کے باوجود عالمی ضمیر معمول کی قراردادوں تک محدود ہے دوسری جانب بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے لئے بنائے گئے عالمی قوانین کو روند رہاہے‘ بھارت کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک عرصے سے سردخانے میں ڈالے ہوئے ہے جس سے خود عالمی ادارے کی ساکھ پر سوالیہ نشان ثبت ہورہے ہیں‘وقت کا تقاضہ ہے کہ عالمی ضمیر برسرزمین حقائق کا احساس کرتے ہوئے غزہ اور کشمیر کے حوالے سے اپنا موثر کردار یقینی بنائے۔
نئی عجیب پابندی
عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کو بجلی کی پیداوار بڑھانے کے تمام منصوبوں پر فل سٹاپ لگانے کا کہا ہے‘ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان بجلی کی پیداوار میں اضافے کی بجائے مالی نقصانات کم کرنے پر توجہ دے‘ دوسری جانب طلب کے مقابلے میں بجلی کی کم رسد کا مسئلہ شدت اختیار کرتا چلا جارہا ہے‘ سستی بجلی بنانے کے لئے ہائیڈل پاور پراجیکٹس کی ضرورت اپنی جگہ ہے‘جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننا اپنی جگہ‘ درپیش صورتحال سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم بنایا جائے تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط سے جان چھڑائی جاسکے‘ اس کے لئے محفوظ حکمت عملی ناگزیر ہے جس میں اب تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔