800 ارب روپے کا فراڈ

وفاقی حکومت محصولات میں اضافے کیساتھ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں اصلاحات کا عندیہ بھی دے رہی ہے‘ وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز دولت مند اور سرمایہ دار طبقے کے49 لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ہدایت کی ہے‘ اسلام آباد میں جمعرات کو منعقد ہونیوالے اہم اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف کا بتانا تھا کہ گزشتہ4 ماہ میں صرف ٹیکس ری فنڈ کی مد میں 800 ارب روپے کا فراڈ پکڑا گیا ہے‘ اجلاس کو بتایا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے 49 لاکھ ایسے افراد کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جو ٹیکس دینے کی استطاعت رکھتے ہیں جس پر وزیراعظم نے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ غریب طبقے پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے‘ ایف بی آر میں اصلاحات اور پورے سسٹم کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کا کام بعداز خرابی بسیار سہی قابل اطمینان ہے وطن عزیز کی اکانومی ایک طویل عرصے سے شدید مشکلات سے گزررہی ہے ایسے میں اصلاح احوال کیلئے اقدامات کی ضرورت کا احساس ناگزیر ہے‘ معاشی مسائل کے حل کیلئے مجموعی طور پر اصلاحات کی ضرورت سے صرف نظر ممکن نہیں تاہم بہتری کی جانب اٹھائے جانے والے اقدامات میں ضروری یہ بھی ہے کہ پورے منظرنامے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک کے غریب شہری کیلئے ریلیف یقینی بنایا جائے ملک کا یہ غریب شہری نہ تو معیشت کو اس مقام تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے نہ ہی وہ یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں کے ادوار میں قرضے اٹھانے کا‘ اس شہری کو قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے ساتھ ہی یہ ہر سیکٹر پر عائد ہونیوالے ٹیکس کی ادائیگی کا پابند بھی ہے حکومت کی جانب سے کوئی بھی ٹیکس لگے یا پیداواری لاگت میں کوئی اضافہ ہو تو اسے مصنوعات کی پیکنگ پر درج کر دیا جاتا ہے اور صارف کے لئے اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے حکومت کی جانب سے ایف بی آر میں اصلاحات اور اس کے سارے نظام میں بہتری کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کاعندیہ متقاضی ہے کہ اصلاح احوال کی غرض سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے دائرے کو مزید توسیع دی جائے اس وقت پوری مشینری کو اوورہالنگ کی ضرورت ہے پورے دفتری نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا اب ناگزیر ہو چکاہے اسی طرح سروسز کے اداروں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عوام کیلئے آسانی کا ذریعہ بن سکتا ہے‘ اس سب کیلئے ضرورت مرکز اور صوبوں کی سطح پر موثر حکمت عملی کی ہے جس میں برسرزمین حقائق کو مدنظر رکھنے کے ساتھ آنے والے وقت کی ضروریات کا احساس بھی شامل ہو‘ اس میں ضروری ہے کہ ٹائم فریم کا تعین بھی ہو‘ تاکہ ثمرآور نتائج کے حصول میں زیادہ وقت نہ لگے‘اس سب کے لئے مانیٹرنگ کا محفوظ نظام مرکز اور صوبوں کی سطح پر ناگزیر ہے۔