وفاقی حکومت نے ایک ایسے وقت میں برآمدات کیلئے بڑا ہدف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب ملک میں سیاست کا میدان پوری طرح گرم ہے امن و امان سے جڑے مسائل الگ ہیں جبکہ پورے منظرنامے میں غریب شہری کمر توڑ گرانی کے ہاتھوں اذیت کاشکار ہے اس سب کیساتھ توانائی بحران اور بجلی و گیس کے بلوں کا بڑھتا والیوم اپنی جگہ پریشان کن ہے‘ وزیراعظم شہبازشریف نے منگل کے روز برآمدات میں اضافے سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ملکی ایکسپورٹ کو تین سال میں60 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانے کا ہدف دے دیا ہے وزیراعظم نے اگلے تین سال میں اس ٹارگٹ کے حصول کیلئے عملی اقدامات کا حکم دیا ہے‘ یہ ہدف اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو سال گزشتہ کی مجموعی برآمدات کا حجم30ارب ڈالر سے کچھ زیادہ تھا‘ اس وقت وطن عزیز معیشت کے سیکٹر میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور ملک کی اکانومی کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہوئی ہے اس منظرنامے میں ملک کا عام شہری گرانی اور یوٹیلٹی بلوں کے والیوم کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہے مسئلے کا حل قرضوں سے چھٹکارہ اور درآمدات پر انحصار کم سے کم کرنے جبکہ برآمدات میں خاطر خواہ اضافے سے جڑا ہوا ہے ‘ایکسپورٹ کا حجم بڑھانے کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت بھی ہے جس کیلئے سازگار ماحول امن وامان کی صورتحال قابل اطمینان ہونا اور سیاسی استحکام بھی ناگزیر ہے اس کے ساتھ پیداواری لاگت میں کمی بھی ضروری ہے تاکہ بین الاقوامی منڈی میں مسابقت ممکن ہو سکے پیداواری لاگت میں خام مال کی قیمتیں اور بجلی گیس کے بل حد اعتدال میں ہونا ضروری ہیں ‘بجلی کے کیس میں ریلیف اسی صورت ممکن ہے جب سستی بجلی کے حصول کیلئے ہائیڈل پاور پراجیکٹس پر بھرپور توجہ مرکوز کی جائے اس کیلئے ناگزیر یہ بھی بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے سیاسی سطح پر بھی مشاورت ممکن بنائی جائے‘ وزیراعظم نے ایکسپورٹرز کو درپیش مسائل کے حل کیلئے تجاویز بھی طلب کی ہیں یہ تجاویز اسی صورت اصلاح احوال اور اہداف کے حصول میں ثمر آور ثابت ہو سکتی ہیں جب ان میں برسرزمین حالات کو مدنظر رکھا جائے اور مشکلات کا بھرپور ادراک شامل ہو بصورت دیگر اگر صرف معمول کی کاغذی کاروائیوں پر مبنی رپورٹس پر ہی انحصارکیا جاتا رہا تو مسائل اپنی جگہ ہی رہیں گے جیسے کہ مختلف سیکٹرز میں اصلاحات کے عمل میں فائلوں کا پیٹ کاغذوں سے بھرجاتا ہے جبکہ عام شہری عملی ریلیف کے انتظار میں ہی رہ جاتے ہیں‘ وقت کاتقاضہ ہے کہ ذمہ دار دفاتر ملکی معیشت کو درپیش مشکلات کے نتیجے میں قرضوں کے انبار اور عام شہری کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے قابل عمل تجاویز کیساتھ اصلاح احوال کی جانب بڑھیں۔