وزیراعظم شہبازشریف نے وطن عزیز کی معیشت کی بحالی کیلئے کڑوے فیصلوں کو ناگزیر قرار دیا ہے‘ ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف کا کہناہے کہ ہم نے ریاست کو سیاست پر ترجیح دی ہے اور اس طرح سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے‘ وطن عزیز کی معیشت طویل عرصے سے دشواریوں کا سامنا کر رہی ہے‘ ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے اور قرضوں کا حجم کم ہونے کی بجائے وقت کیساتھ بڑھتا ہی چلا جارہاہے اقتصادی شعبے کے اہم دفاتر دن رات قرضوں کے حصول کیلئے کوششوں اور قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد یقینی بنانے میں مصروف رہتے ہیں‘ قرضوں پر چلنے والی معیشت میں قرضہ دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد نے ملک میں عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے حکومت مسئلے کے حل کیلئے ٹیکس عائد کرتی ہے جبکہ صنعتکار درآمد کنندہ اور ہول و ریٹیل کا کاروبار کرنے والے اس ٹیکس کا لوڈ صارف کو منتقل کر دیتے ہیں اسی طرح بجلی گیس یا درآمدات پر کوئی ٹیکس لگے‘بلوں کا حجم بڑھے تو پیداواری لاگت کا سارا لوڈ بھی بغیر انتظار کئے صارف کو منتقل کر دیا جاتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ درپیش منظرنامے میں جتنے کڑوے گھونٹ ہوں وہ سب اسی عام شہری کیلئے ہوتے ہیں‘دوسری جانب حکومت کی جانب سے کسی بھی سیکٹر میں کوئی مراعات یا سہولیات دی بھی جائیں تو ان کا فائدہ عملی ریلیف کی صورت اس صارف تک نہیں پہنچ پاتا حکومت سخت فیصلے کرے یا کڑوے گھونٹ لینے کو ناگزیر قرار دے‘ اس کا لوڈ غریب عوام ہی کو اٹھانا ہوتا ہے اقتصادی منظرنامے میں اصلاح احوال کیلئے حکومت کا عزم اپنی جگہ قابل اطمینان ہے‘وزیراعظم شہبازشریف مزید قرضوں کیلئے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے پاس نہ جانے اور معاشی استحکام یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہیں تاہم اس سارے عمل میں ضرورت عوام کو درپیش مسائل کے حل کی بھی ہے‘ اس وقت ملک کا عام شہری مصنوعی مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کے ہاتھوں سخت پریشان ہے‘ اس شہری کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں یہ علاج کیلئے بھی قرض اٹھا کر نجی اداروں میں جانے کو ترجیح دیتا ہے اس شہری کو پیٹ کاٹ کر بچوں کی فیس بھی ادا کرنا پڑتی ہے ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو روزگار کے حصول میں پریشانی کا سامنا ہے فنانشل سیکٹر میں تمام مشکلات اپنی جگہ‘ اس وقت ضرورت فوری نوعیت کے اقدامات اٹھا کر عوام کے لئے ریلیف یقینی بنانے کی ہے جس کے لئے مارکیٹ کنٹرول اوردیگر سیکٹرز میں کڑی نگرانی کا محفوظ انتظام کرنے کیلئے فنڈز کی ضرورت نہیں صرف گڈ گورننس سے بھی عوام کی اذیت کم ہو سکتی ہے۔