گرمی‘ سیاست اور بجلی

گرمی کی شدت کے تناسب سے ملک کی سیاسی فضاء بھی تپی ہوئی ہے‘ سیاسی بیانات‘ مباحثوں اور جلسوں میں تقاریر سے تناؤ کی شدت کا اندازہ ہو رہا ہے‘ یہ سب اپنی جگہ اس وقت گرمی کی شدت میں ملک کا غریب شہری بجلی کی لوڈ شیڈنگ جو کہ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ہے کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے‘ بجلی بحال ہونے پر ترسیل کے نظام کی خرابیاں وقت کے ساتھ زیادہ سنگین صورت اختیار کرتے ہوئے سامنے آ جاتی ہیں اور کوئی خرابی ہونا ہو کم وولٹیج اذیت ناک ہونے کے ساتھ برقی آلات کی خرابی کا باعث بن کر مالی نقصان کا ذریعہ بھی ہے‘ معمول کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ لائن لاسز کے باعث بجلی کی اضافی بندش پر وہ صارفین بھی مشکلات برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر گھنٹوں بینکوں کے سامنے لگی قطاروں میں کھڑے ہو کر بل جمع کراتے ہیں‘ کسی دوسرے کی غلطی کی سزا ان صارفین کو ملنا سراسر زیادتی کے مترادف ہے‘ سیاسی منظر نامے کی گرما گرمی کے ساتھ ضروری ہے کہ قومی قیادت توانائی بحران جیسے اہم ایشو پر مل بیٹھ کر بات کرے اور اسے یکسو کیا جائے۔ اس وقت بجلی کے بل صارفین کے گھریلو بجٹ بری طرح متاثر کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب سستی بجلی کے حصول کیلئے آبی ذخائر سے متعلق باہمی مشاورت سے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت کا احساس ناگزیر ہے جس کیلئے قومی قیادت کو کردار ادا کرنا ہے‘ بجلی کی طلب کے مقابلے میں کم رسد کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ذمہ دار دفاتر اعداد و شمار جاری کرنے پر ہی اکتفا کریں کہ جون میں ڈیمانڈ اور سپلائی کے درمیان گیپ اتنا تھا اور جولائی میں کم اور زیادہ ہو گیا ہے‘ اصل ضرورت مسئلے کے حل کی ہے‘ اس کیلئے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ضروری یہ بھی ہے کہ بجلی کا ضیاع روکا جائے۔ لائن لاسز پر قابو پایا جائے‘ ترسیل کے نظام کی خرابیاں دور کی جائیں‘ دفاتر شکایات کے وسائل اور افرادی قوت میں اضافہ کیا جائے‘ صرف اعداد و شمار بتانا اورلائن لاسز کی صورت میں بل جمع کرنے والے صارفین کو بھی سزا میں شامل کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ 
مریضوں کی ہسپتالوں تک رسائی؟
متعدد اعلانات‘ ہدایات‘ قاعدے‘ قانون ریکارڈ پر موجود ہونے کے باوجود صوبے کی بڑی سرکاری علاج گاہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال تک مریضوں کو پہنچانے میں مشکلات موجود ہیں‘ ہسپتال کے شعبہ حادثات اتفاقیہ کے گیٹ تک پہنچنا محال ہے جبکہ گیٹ کے قریب کی صورتحال زیادہ پریشان کن ہے‘ اسی طرح کی صورتحال خیبر تدریسی ہسپتال تک رسائی کی بھی ہے تاہم وہ قدرے کم ہے کیا ہی بہتر ہو کہ اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز مل کر حکمت عملی ترتیب دے دیں‘ ٹریفک اور پارکنگ کیساتھ تجاوزات اور دوسرے مسئلے اپنی جگہ‘ کم از کم مریضوں کو ہسپتالوں تک پہنچنے کیلئے انتظام بہتر اور محفوظ بنانا ضروری ہے۔