سیاسی تناؤ اور اعدادوشمار

ملک کی سیاست میں تناؤ‘ احتجاج‘ ایوان کے اندر گرماگرمی کا ماحول‘ سخت بیانات‘ پرجوش تقاریر میں ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بارش کے جاری سلسلے میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے پیش کردہ اعدادوشمار اصلاح احوال کیلئے اقدامات کے متقاضی ہیں‘ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اس وقت قرضے کا حجم130 ارب ڈالر ہے اس کے ساتھ وہ کریڈٹ ریٹنگ‘ بینک دولت پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کمی کو حوصلہ افزاء قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ عوام پریشان نہ ہوں اسحاق ڈار یہ بھی کہتے ہیں کہ برآمدات کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں نمایاں ہے‘دریں اثناء خبررساں ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے4سال کے عرصے میں 6.26 ارب ڈالر قرض لیا ہے جبکہ واپسی4.52 ارب ڈالر رہی ہے رپورٹ میں اعدادوشمار کیساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صرف انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کو3ارب60 کروڑ ڈالر کا سود اداکیا گیا ہے‘ پاکستانی کرنسی میں اس رقم کا والیوم1004 ارب روپے سے بھی زیادہ بتایا جارہا ہے اعدادوشمار کے ساتھ اگر دیکھا جائے تو پچھلے 30سال میں قرضوں کی مالیت29ارب ڈالر رہی ہے‘ اس بحث میں الجھے بغیر کہ30سال سے29 ارب ڈالر کے قرضے اٹھانے کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں اوریہ کہ کون کس پر کیا الزام عائد کر رہا ہے‘ اصل ضرورت اصلاح احوال کیلئے اقدامات کی ہے‘ ان اقدامات کے حوالے سے بھی ہر دور حکومت میں درجنوں اعلانات ہوتے چلے آئے ہیں‘ اس وقت برسرزمین حالات اور اس پورے منظرنامے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وطن عزیز کے غریب شہریوں کی حالت متقاضی ہے کہ مزید تاخیر سے گریز کئے بغیر بہتری کی جانب بڑھا جائے‘ اس کے لئے برسرزمین حالات کی روشنی میں تکنیکی مہارت سے آراستہ منصوبہ بندی ناگزیر ہے‘ جس میں وسیع مشاورت کی ضرورت بھی ہے۔
پیشگی انتظامات
دیرآیددرست آید کے مصداق وزیر اعلیٰ سردار علی امین گنڈاپور نے مون سون کی بارشوں کے لئے پیشگی انتظامات کی ہدایت جاری کی ہے‘ وزیر اعلیٰ کی ہدایات کس قدر ثمر آور ثابت ہو سکتی ہیں‘اس کا انحصار ان ہدایات پر عملدرآمد کے لئے میکنزم سے جڑا ہوا ہے‘ ہمارے ہاں الرٹ جاری ہونے کو معمول کی کاروائی کا حصہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ بارشوں میں پیش آنیوالی مشکلات اور نقصانات سے متعلق بعد میں آئندہ کیلئے پیش بندی کاکہہ دیاجاتا ہے‘مسائل کا حل صرف پیشگی انتظامات میں مضمر ہے‘ قابل اطمینان ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے اس ضمن ہدایات جاری کردی ہیں اب ضرورت ہے کہ ان پر عملدرآمد کیلئے مانیٹرنگ کا انتظام بھی ہو۔